درگزر کی بات : تحریر الطاف حسن قریشی


حالاتِ حاضرہ میں عام آدمی کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے، اِس لیے ہمارے زیادہ تر ٹی وی چینلز اور یوٹیوب گزرتے لمحات کو تندوتیز لہجے میں زیرِبحث لا رہے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے منجھے ہوئے تجزیہ نگار بڑی پُرمغز گفتگو کرتے ہیں، لیکن ذرائع ابلاغِ عامہ میں رجحان یہ پنپتا جا رہا ہے کہ حالاتِ حاضرہ اِس طرح پیش کیے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ سنسنی پھیلے، دشمنی کا ماحول بنے اور قومی اداروں کو بھی آپس میں لڑایا جاتا رہے۔ ہماری سیاسی زندگی میں تناؤ، رسہ کشی اور کردارکشی کی ہولناک وارداتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سبب یہی تھا کہ دونوں بازوؤں میں علاقائی جماعتوں نے انتخابی میدان مار لینے کے بعد مذاکرات کے دروازے مقفل کر دیے تھے اور سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کر دیے گئے تھے۔ اُن علاقائی جماعتوں نے اپنے پُرجوش جیالوں اور ہم نواؤں کے ذریعے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تھی۔ 1971ء میں فوج حکومت کے معاملات چلا رہی تھی۔ اِس ادارے کی سیاسی سُوجھ بُوجھ بڑی محدود تھی، اِس لیے وہ پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش میں ناکام رہی اور ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کر دی اور وُہ دولخت ہو گیا۔

اُسی بدنصیب عہد سے ہمارے ہاں بدتہذیبی اور بےبنیاد اِلزام تراشی کے کلچر کو فروغ ملا۔ قومی اور سیاسی معاملات پر سنجیدگی اور گہرائی سے تبادلۂ خیال کی روایت کمزور پڑتی گئی اور ہمارے کئی عشرے دست و گریباں رہنے ہی میں ضائع ہو گئے۔ اُدھر 1955ء میں چیف جسٹس محمد منیر نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا جو بیج بویا تھا، وہ اَب تناور دَرخت بن چکا ہے۔ اُس کے زیرِسایہ چار مارشل لا پھلے پھولے جبکہ سول ادارے کمزور پڑتے گئے۔ اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان من مانی کرتے اور نظمِ حکومت میں شگاف ڈالتے رہے۔ عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں وزرائےاعظم پھانسی پر لٹکائے گئے، اقتدار سے محروم کیے جاتے اور نشانِ عبرت بنائے جاتے رہے۔ اِس کے علاوہ انتخابات شغلِ طفلاں بن گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1970ء میں تو اِنتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذمےدار سیاسی جماعتوں کے جیالے اور اُن کے ہم نوا اِنتخابی عملے کے درپردہ اَرکان تھے، لیکن 2018ء اور 2024ء کے انتخابات میں بالادست قوتوں نے دھونس اور دَھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم کر ڈالے۔ اِن دونوں انتخابات میں ہر غلط کام کھلے بندوں انجام پاتا رہا جس سے پورا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا۔ سیاسی جماعتوں میں رقابتیں اِس درجہ گہری اور وَسیع ہوتی گئیں کہ آج ملک مستقل جنگ کا اکھاڑہ بن چکا ہے اور اَپنے حریفوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی سرِعام باتیں ہو رہی ہیں۔ اِس ہیجان انگیز حالت میں 9 مئی کا حادثہ پیش آ گیا جو ہماری تاریخ کا یقیناً ایک سیاہ ترین دن تھا، مگر مختلف وجوہ سے اِس خطرناک منصوبے کے اصل مجرم انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جا سکے۔ اِس بےبصیرتی اور ناتوانی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جج صاحبان ایک دوسرے کے مدِمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کا یہ پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے اور قومی سلامتی اور ملکی وحدت کے لیے بہت بڑی آزمائش کا پیش خیمہ ہے۔

ایک اور عبرت انگیز بات یہ ہے کہ واقعات غیرمعمولی برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں، مگر ہمارے حالات عشروں سے ایک ہی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اِسی جاں لیوا کیفیت سے متاثر ہو کر ہمارے شاعرِ بےبدل جناب دلاور فگار کی رگِ ظرافت پھڑکی اور نہایت کمال کا شعر تخلیق ہو گیا۔ اُس کا یہ مصرع زبان زدِ عام ہوا کہ ’حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔ میرے حافظے میں پہلا مصرع یہ محفوظ ہے کہ حالاتِ حاضرہ کو بدل جانا چاہیے۔‘ اب سوال یہ ہے کہ حالاتِ حاضرہ تبدیل کیسے کیے جائیں۔ ہمارے شعلہ بار تجزیہ نگاروں اور سیاسی حالات کے مرثیہ خوانوں نے نوجوانوں کے اندر نفرت اور اِشتعال کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ بےپَر کی اڑانے والے سوشل میڈیا نے فوج کو بھی اپنے نشانے پر لے رکھا ہے جو دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ملکی معیشت قابو میں نہیں آ رہی۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ عسکری قیادت کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور ہمارے فوجی سپہ سالار جنرل سیّد عاصم منیر نے اپنے پورے ادارے کو ملکی معیشت کی بحالی پر مامور کر دیا ہے۔ قانونی ضابطوں کے مطابق وجود میں آنے والی سرمایہ کاری کی خصوصی کونسل پوری طرح فعال ہے۔ اُس کی اچھی کارکردگی سے متاثر ہو کر بیرونی ممالک پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اب تمام سیاسی جماعتوں پر یہ ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ اِس سازگار ماحول میں آئے دن کی سرپھٹول کے بجائے مثبت کردار اَدا کریں اور اُن تمام کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں جو پاکستان کو اِقتصادی پس ماندگی اور غیریقینی کی دلدل سے نکال سکتی ہوں۔

ہم اِس موقع پر اپنے قارئین کی نذر چند اشعار کر رہے ہیں جن میں اِن کیفیات کا بھی ذکر ہے جن سے ہماری قوم ایک مدت سے گزرتی آئی ہے اور اِن میں حیاتِ نو کا ایک راز بھی مضمر ہے اور وُہ راز ہے ’درگزر کی بات‘۔ اشعار ملاحظہ کیجیے ؎

تھی رہگزر کی بات سرِرہگزر کی بات

وہ بن گئی کشاکشِ شام و سحر کی بات

اندھوں نے مل کے شور مچایا ہے کُو بہ کُو

تا سن سکے نہ کوئی کسی دیدہ ور کی بات

شاید اُدھر سے آ ہی گیا ہو پیامِ شوق

اے دوستو! سنو تو سہی نامہ بر کی بات

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب معتبر رہی نہ کسی معتبر کی بات

کتنے حصار کھینچ کے ، کی تجھ سے گفتگو

موجِ نسیم لے ہی اُڑی میرے گھر کی بات

طوفانِ ہائے ہُو میں بڑی گھن گرج تو ہے

کیا لطف زیست ہو نہ اگر خوب تر کی بات

اِک مستقل خلش نے رکھا مضطرب مجھے

میرے خمیر میں تھی نہاں خیر و شر کی بات

ہنگامِ زندگی میں بڑے معرکے ہوئے

لیکن نشاطِ جان رہی درگزر کی بات

زنجیرِشب کے آخری حلقے بھی کٹ چلے

یوں مثلِ تیغِ تیز چلی ہے سحر کی بات

مردانِ فقر شناس کی سرشاریاں نہ پوچھ

اُنہی سے مات کھاتی رہی سیم و زر کی بات

الطافؔ سن رہے ہیں بڑی محویت سے ہم

خود سے بلند ہو کے رُخِ معتبر کی بات

بشکریہ روزنامہ جنگ