ایک ہی جھوٹ کو بار بار دھرایا جائے تو لوگ اس کو سچ سمجھ لیتے ہیں لیکن اگر ایک ہی دھمکی بار بار دی جائے تو وہ محض گیڈر بھبکی بن کر رہ جاتی ہے۔اسٹیبلیشمنٹ نام ہی طاقت اور ایکشن کا ہے۔ اس کی جانب سے ایک دو بار وارننگ تو آسکتی لیکن پھر فوری ایکشن نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ آٹھ مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے بعد نو مئی کو لاہور گیریژن کے دورے کے دوران آرمی چیف کی دوٹوک گفتگو کے بعد اس بات کا موقع نہیں آنا چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کو اس معاملے پر سیاست چمکانے کا موقع دیا جاتا۔ مانا کہ فیصلہ کن اقدامات موافق ماحول بنا کر ہی کیے جاتے ہیں لیکن یہ بھی سو فیصد درست ہے کہ اگر ٹیمپو ( رفتار، چال ) بن جانے کے باوجود عمل درآمد کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جائے تو بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ ذرہ برابر شک نہیں کہ سانحہ نو مئی 2013 آرمی چیف کا تختہ الٹنے کی منظم اور بھرپور سازش تھا۔ عمران خان ، پارٹی کے کچھ مرکزی قائدین، چند ریٹائر و حاضر سروس فوجی افسران اور اعلی عدلیہ کے بعض جج مرکزی کردار تھے۔ حملوں کے فوری بعد کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ جلی ہوئی عسکری تنصیبات دیکھ کر عوامی غم وغصہ ، ادارے کا یکسو رہنا اور ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہنے کے بعد سپریم کورٹ کے خلاف اٹھنے والی نفرت کی لہر اتنی شدید تھی کہ چیف جسٹس بندیال کو صفائی پیش کرنا پڑ گئی کہ وہ تو عدالت آنے والے اکثر افراد کو ’’گڈ ٹو سی یو ‘‘ کہتے ہیں (حالانکہ یہ سفید جھوٹ تھا)۔ بات صرف اتنی تھی کہ بندیال اور ساتھی جج جان چکے تھے کہ فضا ایسی چکی کہ اب ان پر بھی ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی قیادت نے نجانے کیا سوچ کر اس وقت آہنی ہاتھ استعمال نہیں کیا۔ سازش اتنی گہری تھی کہ مقتدر حلقوں سے قریبی روابط رکھنے والے فیصل ووڈانے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ سازشیوں کو پکڑنا ہے تو جوتا چلانا شروع کریں پہلے چکوال جائیں (فیض حمید) پھر کوئٹہ (ان دنوں وہاں آصف غفور کور کمانڈر تھے) اس کے بعد بہاولپور اور آخر میں وہی جوتا بیرون ملک چلائیں یعنی مختلف سفارتخانوں میں موجود پی ٹی آئی کے ہمددر سفارتکار شرپسندوں کی سہولت کاری کررہے تھے۔ نو مئی 2023 سے نو مئی 2024 تک پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت رہی، کاکڑ کی نگران حکومت آئی ، انتخابات کے بعد پھر شہباز حکومت آگئی مگر پی ٹی آئی کی منفی سیاست پر قابو نہ پایا جاسکا۔ کچھ رکاوٹیں ضرور تھیں اور آج بھی ہیں لیکن یہ نظر آرہا ہے کہ کہ نو مئی 2024 کے بعد ایک بار پھر ایکشن کے لیے ماحول بن چکا ہے۔ اگرچہ کور کمانڈر منگلا کی فراغت اور کورکمانڈر پشاور کے تبادلے سے تاثر گیا ہے کہ ادارے کے اندر صفائی کا عمل آج تک جاری ہے لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے عجیب و غریب احکامات جاری کرنے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی تو ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں وزیر رہنے والا جج ضمیر جاگنے کا دعویٰ کرئے اور ایک پارٹی کی اندھا دھند حمایت کرتا جائے تو اس پر کون یقین کرئے گا۔ لاہور یا پشاور ہائی کورٹوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بے وجہ نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کی بنیاد ہی یہی کہ ٹیریان کیس میں دباو ڈالا گیا، خط میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ہر جج چیف جسٹس قاضی فائز عیسی یا جسٹس ر شوکت عزیز صدیقی کی طرح بہادر نہیں ہوتا اس لیے ان کی مدد کی جائے۔ یہ سب وہی جج ہیں جو پی ٹی آئی کو بوریاں بھر کر ریلیف دیتے رہے اور آج تک دے رہے ہیں۔ ایسے ججوں کا جوڈیشل ایکٹو ازم عذاب بن چکا ،اس ماحول میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں کے متعلق الیکشن کمیشن اور پھر پی ٹی آئی کے اپنے پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو معطل کردیا۔ اس عدالتی حکم کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات لاکر ججوں کے اختیارات کی حدود کو واضح کرنا چاہتی تھی سپریم کورٹ نے حکومت کی دو تہائی اکثریت ہی اڑا دی۔ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کوئی ادارہ خواہ سپریم یا ہائی کورٹ ہی کیوں نہ ہو دوسروں کے معاملات میں مداخلت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر تل جائے تو اسے روکا نہیں جاسکتا۔ ابھی تین سال پہلے تک محض کرنل رینک کا ایک افسر وسیم لیاقت سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو انگلی کے اشاروں پر چلاتا تھا، کہنے اور دکھانے کی حد تک آئین اس وقت بھی برقرار تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی مشینری میں ایسی کیا فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے کہ جج تو دور کی بات کراچی کا ایک بڑا سیٹھ عارف حبیب بھری محفل میں وزیر اعظم شہباز شریف کو کہہ رہا تھا کہ اڈیالہ جیل جاکر عمران خان سے ہاتھ ملائیں۔کیا کوئی صنعت کار اپنے طور پر ایسی جسارت کرسکتا ہے ؟ ویسے کربھی سکتا ہے کیونکہ کورونا وبا کے دوران آنے والی لگ بھگ ساڑھے چار ارب ڈالر کی گرانٹ انہی کارٹلز میں بانٹ دی گئی تھی۔ عمران حکومت کے بعد جب پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس کا حساب مانگا تو خاموش رہنے کا حکم ملا۔ کارٹلز سمجھتے ہیں ان کے لیے عمران ، باجوہ ، فیض ٹائپ سیٹ اپ ہی سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ ملک میں افراتفری پیدا کرنے والے عناصر میں یہ کارٹلز بھی شامل ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں ماتحت عدالت نے سزا یافتہ قیدی عمران خان کے بیانات چلانے پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن تمام چینلوں پر دھڑلے سے چل رہے ہوتے ہیں۔ آج تو سپریم کورٹ نے نیب سے متعلق درخواستوں پر موقف پیش کرنے کے لیے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے جلوہ نمائی کی اجازت دے دی ہے، جسٹس اطہر من اللہ اصرار کرتے رہے کہ عمران خان کو سپریم کورٹ میں باقاعدہ مدعو کیا جائے۔ اس عمل کا سیاسی نتیجہ برآمد ہوگا جو پی ٹی آئی کے حامیوں کے جوش و خروش کو مزید گرمانے کی صورت میں نکلے گا۔ جنرل عاصم منیر نے چند روز قبل ڈیجٹل دہشت گردی کی بات کی جس سے عدم اتفاق ممکن نہیں لیکن یہ چینلوں پر کیا ہو رہا ہے؟ ہر سکرین پر پی ٹی آئی کے لیڈر، ہمددر اینکر اور جانبدار تجزیہ کار حکومت کا نام لے کر ریاستی اداروں اور عہدیداروں کی مٹی پلید کرتے نظر آتے ہیں۔ سنا ہے لمحہ موجود میں مشکل یہ ہے کہ ایک دفتر کے دو بڑے اپنی اپنی مرضی سے الگ الگ کارروائیاں کرتے ہیں اسی لیے ابہام اور دو عملی کا تاثر کم نہیں ہو پا رہا۔ ہوسکتا ہے اگلے چار سے چھ ہفتوں میں تبدیلی آجائے، مکمل ہم آھنگی کے ساتھ ٹھوس طریقے سے کام شروع ہوگیا تو حالات میں ٹھہراؤ آجائے گا۔ مکرر عرض ہے نو مئی 2023 کے فوری بعد کی طرح نو مئی 2024 میں کے فوری بعد بھی ایک بار پھر فضا ایکشن کے لیے ساز گار ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے ایسا بار بار نہیں ہوتا۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات