نواز شریف صاحب اور آصف علی زرداری صاحب، دونوں کی جماعتیں پاکستان میں اقتدار میں ہیں اور آزاد کشمیر، میں بھی۔ آزاد کشمیر کے عوام نے ایک بنیادی حقوق کی تحریک شروع کی ہے۔ اس میں regime change کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مقامی گریڈ 17 یا گریڈ 18 کے افسر اور آپ دونوں کی ایک فون کال کافی ہے۔ آزاد کشمیر میں عام آدمی کا ووٹ اب تبدیلی کا ذریعہ instrument of change نہیں رہا۔ ووٹ کو عزت دو کا خیال خیال ابھی یہاں نہیں جاگا۔آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ پوری ریاست کا پاکستان کے ساتھ تعلق آئین کے آرٹیکل 257 کے تحریک میں آنے کے بعد ایک باہم ڈائیلاگ کے تحت طے کیا جانا مطلوب ہے۔ آزاد کشمیر ایک لوکل اتھارٹی ہے اور اس انتظام کی نگرانی پاکستان کے کسی سرکاری افسر نے نہیں، بلکہ اقوام متحدہ نے کرنی ہے۔ لمحہ موجود میں پاکستان کی معاونت de facto ہے۔ اس میں quid pro quo اور لین دین کا کاروبار شام کیا گیا ہے۔نواز شریف صاحب کشمیر کے معاملات اقوام متحدہ کے منتظم برائے رائے شماری کے سپرد ہونے تھے۔ آپ یہ ذمہ داری برجیس طاہر، قمر زمان کائیرہ یا امیر مقام کے سپرد کر دیتے ہیں۔
مہاراجہ تو بھاگ گیا، لیکن آپ نے ہم پر اب بھی چراغ بیگ خان مسلط کئے ہیں۔ آپ کے بھائی شہباز شریف صاحب ، بینظیر صاحبہ، زرداری صاحب ، یوسف رضا گیلانی اور دوسری قیادت پر جب مشکل اور برا وقت آیا، ہم نے مارچ 2001، اکتوبر 2001 اور مارچ 2009 میں اقوام متحدہ میں آپ کی سیکیورٹی اور آپ کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ آپ نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق اور بھارتی افواج کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ آپ نے جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی افواج کے ظلم سے دنیا کو باخبر کیا۔ اور کشمیری عوام کو پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔پاکستان کے عوام کے حقوق اور ووٹ کی عزت کے لئے آپ جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر کو Lilliput سمجھ کر آپ اسٹیبلشمنٹ کا ایک گریڈ 17 یا گریڈ 18 کا Gulliver بھیج کر عوامی ووٹ کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں اور رات کی تاریکی میں راولپنڈی کے برابر علاقے اور عوام پر 50 ارکان کی کابینہ مسلط کر دیتے ہیں۔ نصف آزاد کشمیر بیرون آزاد کشمیر، دوسرے ممالک میں رہ رہا ہے ۔ اس علاقے کی حیثیت حق خودارادیت کی جدوجہد کی وجہ سے ہے۔ وگرنہ ایک ڈپٹی کمشنر اس انتظام کو چلانے کے لئے کافی ہے۔
لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تنگ نظری اور کشمیریات سے ناواقف گریڈ 17 اور گریڈ 18 کے افسران کی بادشاہی سوچ نے آج یہاں کے عام انسان کو آٹے کا تھیلا خریدنے اور بجلی کا بل ادا کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔آپ کی آزاد کشمیر کو 50 ارکان کی دی گء کابینہ پر سالانہ ڈیڈھ ارب روپے کا خرچہ ہے۔ دوسری کمائی کا حساب ہی نہی۔ یہ لوگ کشمیریات کیا، اخبار تک نہیں پڑہنے۔ ایک کمپرومائزڈ نظام ہے اور اس کی beneficiary پاکستان کی سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ کے مقامی افسران اور یہاں کے وفاداریاں تبدیل کرنے والے، ریاستی باشندے ہیں۔ سستے آٹے کی مانگ، بجلی بلات پر اعتراض اور اشرافیہ کے Perks ختم کرنے کے لئے، کشمیری عوام کا سڑکوں پر آنا، لوکل اتھارٹی کے ذمہ داران اور حکومت پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عوام پر ریاستی تشدد کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ ریاست کا انتظام آپ کی سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک دو افسران چلاتے ہیں۔ نہ قبر کا خوف ہے نہ ہی اللہ کا ڈر۔بنیادی حقوق مانگنے والوں پر تشدد، بالخصوص ایک علاقہ کے لوگ جہاں آپ نے UNCIP RESOLUTIONS کے تحت ذمہ داریاں قبول کی ہیں، Unlawful ہے۔ تشدد کی اس کاروائی کے لوکل اور بین الاقوامی consequences ہیں۔ آزاد کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہے۔ رابطے کے ذرائع منقطع کرنا عوام مخالف کاروائی ہے ۔
زمانہ 1857 یا 1931 سے آگے نکل چکا ہے۔ آج کے دور میں یہ اقدام بہت بڑا جرم ہے۔ تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث کشمیریوں اور پاکستانیوں کی سفری سہولیات متاثر ہو سکتی ہیں۔شنید ہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے Rangers اور FC کی مدد طلب کی ہے۔ یہ حکومت آزاد کشمیر کا سستا آٹا اور سستی بجلی مانگنے والی عوام کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ ، وزیراعظم پاکستان اور صدر پاکستان اس عوام دشمنی میں، حصہ دار نہ بنیں۔ بظاہر Prima Facie مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی اس عوام دشمنی میں گھسیٹی جا چکی ہیں۔ لیکن Rangers اور FC کو بھیجنا، اعلان جنگ، سمجھا جائے گا۔ آرمی چیف اور ان کے رفقا کو، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کشمیر پر UN template کی تیاری میں انسانی اور فوجی تاریخ کے 4 نامور جنرلز نے اپنے اپنے ممالک کے ڈیلیگیشنز کی امداد کی ہے۔عوام کا بنیادی سہولیات کی فراہمی کے انکار پر، پرامن مظاہرہ، نہ کوئی جرم ہے اور نہ ہی پاکستان دشمنی۔
آپ نے اقوام متحدہ میں چارٹر کی بات کی ہے اور آزاد کشمیر کے ایکٹ میں بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کا ذکر ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں آرٹیکل 1 شق 2 کا بھی لحاظ رکھیں۔ یہ equality of people اور self-determination کے اصول کی بات کرتا ہے۔ کشمیر کا شہری دنیا کے کسی بھی شہری کے برابر ہے۔ آپ سے اور اسٹیبلشمنٹ سے گزارش ہے کہ وہ پرامن بنیادی حقوق کی تحریک کا ساتھ دیں اور آزاد کشمیر کی قطب نما عوامی منشا کے مطابق درست کریں ۔ اگر آپ نے Rangers اور FC کو آزاد کشمیر بھیجا، تو ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس میں کیا کہیں گے؟ آپ کے خطاب پر کون اعتبار کرے گا؟ ہم کشمیری بھی وہاں موجود ہونگے۔ اور آپ کو ہمارے حرف شکائیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔