سری نگر— تحریک حریت جموں وکشمیر کے سابق چیئرمین محمد اشرف صحرائی کی تیسری برسی اتوار کو منائی جائے گی ۔80 سالہ محمد اشرف صحرائی کورٹ بلوال جیل جموں میں قید کے دوران بیمار ہو کر 5 مئی 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔
تحریک حریت جموں وکشمیر کے سابق چیئرمین محمد اشرف صحرائی کی برسی کے موقع پر لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف خصوصی تقریبات ہوں گی۔ بھارتی جیل میںمحمد اشرف صحرائی کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تھے اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر دو سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ محمد اشرف خان صحرائی کی تدفین ضلع کپواڑہ کے گاں ٹیکی پورہ میں کی گئی تھی۔ غاصب فوج نے چند لوگوں کو ہی تدفین میں شرکت کی اجازت دی اس کے باوجود جنازے کے موقع پر کشمیریوں نے آزادی کے حق میں نعرے لگائے تھے۔
واضح رہے کہ اشرف صحرائی کو قابض بھارتی فوج نے 5 اگست 2019 سے جیل میں قید کر رکھا تھا،ضعیفی کے سبب وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکے اور سانس کی تکلیف کا شکار ہو گئے۔ جموں کورٹ بلوال جیل میں اسیر رہنما علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا فانی سے رخصت ہوگئے، تحریک آزادی کشمیر ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگئی ہے۔ بھارتی قابض انتظامیہ نے شہادت سے صرف ایک روز پہلے انہیں ہسپتال منتقل کیا تھا۔کچھ عرصہ پہلے محمد اشرف صحرائی کے بیٹے جنید صحرائی بھی بھارتی قابض افواج کی حراست میں شہید ہوگئے تھے، بھارتی جیلوں میں قید دیگر کشمیریوں کی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
ادھر حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کو نسل کے چیر مین سید صلاح الدین احمدنے کہا ہے کہ اشرف صحرائی شہید ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کا بہترین نمونہ تھے۔ عزم و استقلال کی ایسی چٹان تھے، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت مقصدِ عظیم سے ہٹا نہیں سکی۔
ان خیالات کا اظہارسید صلاح الدین احمدنے متحدہ جہاد کونسل اور حزب کمانڈ کونسل کے الگ الگ منعقدہ خصوصی اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ محمد اشرف صحرائی 1944 میں وادی لولاب کے گاؤں ٹکی پورہ میں پیدا ہوئے۔16برس کی عمر میں 1960 میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن بنے۔ قیم جماعت اور جماعت کے سیاسی شعبے شعبہ پارلیمان کے سربراہ بھی رہے۔تحریک حریت جموں و کشمیر کے بانی ممبر اور بانی سیکرٹری جنرل رہے۔پھر اس کے سربراہ بھی رہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے ممتاز رہنما، صف اول کے قائداور امام سید علی گیلانی کے دست راست تھے۔ پہلی دفعہ 1965 میں پابندِ سلاسل ہوئے۔ 2019 میں انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور کوٹ بھلوال جموں جیل میں قید رکھا گیا۔ مجموعی طور پر سولہ برس سے زیادہ عرصہ انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ثابت قدمی اور پامردی سے بھارتی سامراج کا مقابلہ کیا اور مسلسل ڈٹے رہے۔۔ان کا پورا خاندان عتاب کا شکار رہا لیکن یہ سب کچھ وہ عزیمت کا پہاڑ بن کر جھیلتے رہے اوراسی حالت میں 5 مئی 2021کو جموں جیل میں زیر حراست شہادت کا جام پی کر ا للہ کے حضور پیش ہوئے۔ایں سعادت بزور بازو نیست۔
جہاد کونسل کے چیر مین نے کہا کہ اشرف صحرائی شہید ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کا بہترین نمونہ تھے۔ عزم و استقلال کی ایسی چٹان تھے، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت مقصدِ عظیم سے ہٹا نہیں سکی۔ کوئی لالچ انہیں خرید نہیں سکا۔ انہوں نے بڑے مصائب برداشت کئے حتی کہ چھوٹے بیٹے جنید صحرائی کی شہادت بھی انہیں اپنے عظیم مقصد کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکی۔ ان کے فرزند جنید صحرائی ان کی اپنی شہادت سے ایک سال پہلے 19مئی2020 کو شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔
جہاد کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ان کی شہادت سے بظاہر ایک بہت بڑا خلا ضرورپیدا ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عظیم قائد نے لاکھوں صحرائی تیار کئے ہیں،جو باطل کو شکست دینے کیلئے پر عزم ہیں اورحصول منزل تک جدوجہد میں مصروف رہنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ ان شا اللہ اشرف صحرائی رحم اللہ کی مقدس جدوجہد اور ان کی قربانیوں کو کسی بھی صورت ضائع نہیں ہونے دیا جائیگا۔۔اجلاسوں میں شہید قائدا شرف صحرائی کی بلندی درجات کی دعا بھی کی گئی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ان کے نقش پا پر چل کرحصول منزل تک تحریک آزادی کی جدوجھد ہر محاذپرجاری رہے گی۔ان شا اللہ