اسلام آباد(صباح نیوز) برطانیہ میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں 22 سال سزا بھگتنے والے کشمیری حریت پسند رہنما قیوم راجہ نے مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے کیس کے پس پرد ہ حقائق اور کئی رازوں سے پردہ اٹھا دیا ہے ۔مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے کیس کے عنوان سے قیوم راجہ کی کتاب شائع ہوگئی ہے ۔ اس سے قبل قیوم راجہ نے ایام اسیری پر ” داستان عزم، حریت کا مسافر اور Vision & Determination “لکھی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کتابوں میں اسی کی دھائی میں مہاترے کے قتل کے حالات و واقعات بیان کیے ہیں ۔
مقبول بٹ شہید کی پھانسی اور مہاترے کیس کے حوالے سے راجہ قیوم نے خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ یہ کتاب عوام کے شدید مطالبہ پر لکھی گئی ہے کیونکہ انہوں نے جن لوگوں کو گرفتاری سے بچایا انہوں نے عوامی عدالت میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ہم اسیران پر ہی الزام تھونپ کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے عوام کے ایک بڑے حلقے کی طرف سے ہر سال مقبول بٹ شہید کی برسی کے موقع پر مطالبہ کیا جاتا رہا کہ اصل حقائق سے پردہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟۔ قیوم راجہ نے کہا احسان فراموش لوگوں کے رویوں کی وجہ سے وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ان کی زندگی میں اگر انکے بارے اس قدر جھوٹ بولا گیا ہے تو مرنے کے بعد کون سچ بتائے گا۔
دوسرا جو حقائق وہ جانتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا۔ یاد رہے کہ قیوم راجہ مہاترے کیس کے اسیران میں واحد کشمیری تھے جنہوں نے اقبال جرم نہیں کیا تھا لیکن جو مہاترے کو اغوا کر کے پاکستان بھاگ آئے تھے وہ یہ کہتے رہے کہ جی راجہ قیوم تو مہاترے کیس میں ملوث ہی نہیں تھا ۔ اس نے تو صرف شہرت کی خاطر امان اللہ خان کی تجویز پر ھیرو بننے کے شوق میں اقبال جرم کر لیا تھا حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ قیوم راجہ تو واحد کشمیری تھے جو 22 سال تک کرائون کورٹ سے لے کر یورپی انسانی حقوق کی عدالت تک الزامات سے انکار کرتے رہے۔ سماعت کرنے والا جج جو بظاہر اقبال جرم سے انکاری پر قیوم راجہ کے خلاف تھا وہ اپنی ججمنٹ میں لکھ گیا کہ راجہ نے ذات کے بجائے کاز اور دوستوں کو بچایا جس کا ثبوت کتاب میں شامل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ امان اللہ خان اور قیوم راجہ کے درمیان قیوم راجہ کے دو سوالات اختلاف کی وجہ بنے تھے۔ ایک یہ کہ امان اللہ خان نے منصوبہ کے بر عکس مہاترے کو گولی مروا کر منصوبہ کیوں ناکام کروایا ؟ دوسرا قیوم راجہ کو اندھیرے میں رکھ کر دوسرے اسیران کو اقبال جرم کے لیے کیوں قائل کیا؟ قیوم راجہ نے کہا انہوں نے تحریک کو بد نام اور جماعت کو برطانیہ میں بینڈ ہونے سے بچانے کی خاطر عدالت میں امان اللہ خان کے خلاف بیان دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جموں کشمیر لبریشن فرنٹ برطانیہ زون کی سینٹرل کمیٹی سے تحقیقات کی تحریری درخواست دی تھی اور یہ حقیقت اس وقت بھی منظر عام پر آ گئی تھی لیکن پھر بھی تواتر کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ۔
قیوم راجہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امان اللہ خان نے اپنے رد عمل میں اس وقت بھی اور اپنی کتاب جہد مسلسل جلد اول میں بھی انہیں ڈپریشن کا شکار نوجوان قرار دیا جبکہ وہ نفسیات کی ڈگری رکھنے کے باعث جیل گورنر کی طرف سے قیدیوں کے لیے نفسیاتی کونسلر مقرر کیے گے تھے جس کا تصویری ثبوت کتاب میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی سیاسی اور اخلاقی زیادتیوں کے باوجود انہیں بھی تو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔قیوم راجہ نے اپنی نئی کتاب میں مسلہ کشمیر کے حل کے لیے فوجی انخلا کی تجویز بھی دی ہے پاکستان میں مقبول بٹ کی پھانسی اور مہاترے کیس کی کاپی حاصل کرنے کے لیے سردار عمر اخلاص کے ساتھ 03452506751 اور آزاد کشمیر میں وسیم راجہ کے ساتھ 03227800245 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔