شہزاد اکبرکا جانا عمران نیازی کے احتساب کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہے،احسن اقبال


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیردخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کے جتنے ترجمان تھے گذشتہ ایک سال سے یہی سنا رہے تھے کہ آپ انتظار کیجیے (ن)میں سے (ش)نکلنے والی ہے لیکن پتا یہ چلا کہ (ع)میں سے(ش)نکل گئی ۔

شہزاد اکبر کا استعفیٰ اعتراف شکست ہے۔شہزاد اکبرکا جانا ایک لحاظ سے عمران نیازی کے احتساب کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہے۔شہزاد اکبر کو ایسیٹ ریکوری یونٹ کا جواب دینا چاہئے جس نے سیاستدانوں کا پیچھا کیا، اپوزیشن کا پیچھا کیا اور سپریم کورٹ کے جج کا پیچھا کیا اور سب لوگوں کو حراساں کرنے کے لئے اس کو استعمال کیا ، میرا توخیال ہے شہزاداکبر کا نام فوری طور پر ای سی ایل پر ڈالنا چاہئے۔ چیئرمین نیب کا نام بھی ای سی ایل پر ڈالنا چاہئے چونکہ مجھے خدشہ ہے کہ جس طرح شہزاد اکبر نے استعفیٰ دیا ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد ہمیں چیئرمین نیب کا استعفیٰ بھی نظرآئے اور یہ لوگ ملک سے فرارہونے کی کوشش کریں، ان کو جوابدہ کرنا چاہئے۔ شہزاداکبر کے لئے ایک اہم عہدہ رہ گیا ہے کہ ان کو چیئرمین نیب لگا دیں تاکہ اس پورے احتساب کے عمل کا ڈراپ سین ہو جائے کہ یہ کس قسم کا احتساب کا عمل ہے۔

ان خیالات کااظہار احسن اقبال نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی مرحلہ پر حکومت کے سر سے دست شفقت اٹھ جائے تو یہ حکومت 48گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتی۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت گھر جا چکی ہے، اس وقت پاکستان میں حکومت نا م کی کوئی چیزنہیں ،رائے عامہ کے اندر یہ حکومت  پیک اپ ہو چکی ہے اور خود وہ لوگ جنہوں نے بہت امیدوں کے ساتھ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا اور وہ عمران خان کی ان تقریروں کے جھانسے میںآئے تھے جو وہ ایک نیا پاکستان بنانے  کے لئے کیا کرتے تھے ،وہ لوگ بھی اب تائب ہو چکے ہیں اورحقیقت دیکھ چکے ہیں۔ حکومت کے لئے اب کوئی اورذریعہ نہیں رہ گیا کہ وہ اپنے آپ کوبچا سکے کیونکہ عملی طور پر یہ ڈی فیکٹو حکومت گر چکی ہے ،اس کے جانے کا کیا طریقہ ہو تا ہے ، اس کی مثال میں ایسے دیتا ہوں کہ جب کسی مریض کو کینسر لاحق ہو جائے تو وہ ایک ٹرمینل ال نیس ہوتی ہے اس کی موت کیا پھیپھڑا فیل ہونے سے ہو گی ، دل فیل ہونے سے ہو گی، یا دماغ فیل ہونے سے ہو گی، یہ ایک ضمنی بات ہے۔موجودہ حکومت بھی اپنی نااہلی ، نا کامی اور کرپشن کے کینسر کے آخری مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے اور یہ عدم اعتماد سے جائے گی یا عوامی مارچ سے جائے گی یہ ایک غیر ضروری بات ہے وہ ایک واقعاتی عمل ہوگا لیکن تمام عملی تقاضوں کے مطابق اب حکومت ختم ہو چکی ہے۔

سردار  ایاز صادق کی آصف علی زرداری سے ملاقات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایازصادق کا ان تمام جماعتوں کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے وہ ایک سابق سپیکر ہیں، یقیناً ان کے پاس فرسٹ ہینڈ معلومات ہو ں گی، اب ا س حکومت کا جانا ٹھہرچکا ہے، صبح گئی یا شام گئی، چونکہ خود جو رائے عامہ کا دبائو ہے اس کے تحت ان کے اپنے اراکین اسمبلی جو لانگ ٹرم سیاست پر یقین رکھتے ہیں وہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ اگلے الیکشن میں اگر وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے تو ان کی ضمانتیں ضبط ہوں گی یا تو وہ آزاد الیکشن لڑیں یا وہ مسلم لیگ (ن)یا کسی اور جماعت میں داخل ہونے کا فیصلہ کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایسانہیں ہے کہ اپوزیشن کے پاس اور کوئی متبادل پروگرام نہیں، مسلم لیگ(ن) بار بار کہہ چکی ہے کہ 2013میں بھی ہمیں ایسے ہی حالات میں پاکستان ملا تھا اور ہم نے کا پاکستان کو تبدیل کیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ہمیں جس چیز کا اندازہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا وہ ادارے جن کے بارے میں ماضی میں کہا جاتا تھا کہ وہ فون کالیں کرتے ہیں وہ غیر جا نبدار ہو چکے ہیں یا نہیں ہوئے، یہ خود ہمیں حکومت کے اراکین کی زبانی پتا لگتا ہے کہ انہیں فون کا ل کرکے بلایا جاتا ہے اور وہ  خودووٹ نہیں دینا چاہتے ، تو ایسی صورت حال میں یقینا اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا فون نہیں ہے جو اس فون کا مقابلہ کرے جو حکومت کے ایوان کے پاس آتے ہیں ہم تو عوامی تائید پر یقین رکھتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں اب اس وقت جس تیزی کے ساتھ حکومت کی غیر مقبولیت ہو رہی ہے تو وہ جو فون کمپنی ہے وہ بھی یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو گی کہ اس حکومت کی جو غیر مقبولیت ہے  وہ فون کمپنی کے گلے میں پڑے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 5.3شرح نمو کا ٹارگٹ حاصل کرنے  کے دعویٰ کو آزاد ماہرین معیشت چیلنج کررہے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساڑھے تین یا چار فیصد سے زیادہ نہیںہے اور یہ اوورپروجیکٹڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی رواں برس شرح نمو9.2فیصد ہے۔ انہوں نے کہاکہ2013میں جب (ن)لیگ حکومت میں آئی تو پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم231ارب ڈالرز تھا اور 2018میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تو جی ڈی پی کا حجم315ارب ڈالرز تھا، آج  پی ٹی آئی کے تین سال کے بعد پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم 280ارب ڈالرز ہے، انہوں نے پاکستان کی جی ڈی پی کو سکیڑ دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق  چھ ماہ میں نو ارب ڈالرز کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے اورسال کے آخر میں یہ 16سے18ارب ڈالرز کا خسارہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ چھ ماہ یا ایک سال تک آپ مصنوعی طریقہ سے ڈالر کی قیمت کو ایک جگہ پر برقراررکھ سکتے ہیں، پانچ سال نہیں گزار سکتے، یہ مشکل ہے کہ آپ مصنوعی طریقہ سے ایکسچینج ریٹ مستحکم رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان گذشتہ ساڑھے تین سال سے لوگوں کو سنارہے ہیں کہ بس تین مہینے گھبرانا نہیں بس اگلے تین مہینے بہتر ہیں اوراگلے تین مہینے پچھلے تین مہینے سے بدتر ہوتے ہیں ۔ حکومت نے ابھی جو 350ارب روپے کا منی بجٹ لگایا ہے اس کا چار سے چھ مہینے تک نیچے عام آدمی تک مکمل اثر جائے گا، آئندہ پانچ ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافہ ہی ہو گا کمی تو نہیں ہو گی۔جبکہ منگل کے روز ٹوئٹرپر جاری اپنے بیان میں احسن اقبال نے کہاکہ پاکستان جو 2018 میں کرپشن انڈیکس میں 117/180 درجہ بندی پہ تھا 2021 میں 23 درجہ تنزلی کے بعد 140/180 کی درجہ بندی پہ آ گیا-عمران نیازی کے دور میں ایک شعبہ میں زبردست ترقی ہوئی وہ کرپشن کی ترقی ہے-احتساب کا نعرہ لگانے والوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کرپشن کنگ ہیں۔