پروفیسر نتاشا کول کو بھارت میں داخلے سے روکنا، ریپ اور قتل کی دھمکیاں تشویش ناک ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ


نیویارک: انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مودی حکومت کے ناقد بھارتی تارکین وطن بالخصوص  پروفیسر نتاشا کول کی بھارت میں داخلے پر پابندی  اور  دھمکیوںپر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق  برطانیہ کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر نتاشا کول کشمیر بارے بھارتی اقدامات کی ناقد رہی ہیں ۔پروفیسر نتاشا کول  بھارت  کے او سی آئی کارڈ ہولڈر ماہرین تعلیم  بھی ہیں  انہیں اس سال 23 فروری کو حکام نے ہندوستان میں داخل ہونے سے روک دیا تھا  لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی برطانوی پروفیسر نتاشا کول کا کہنا تھا کہ امیگریشن حکام نے انہیں اس کارروائی کی وجہ نہیں بتائی ۔ لیکن  بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بعد میں اس معاملے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ملک میں غیر ملکی شہریوں کا داخلہ ایک خودمختار فیصلہ ہے۔نامعلوم سرکاری عہدیداروں نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ کول نے ہندوستان کے خلاف احتجاج کیا  تھا ۔

قابل ذکر ہے کہ کول بی جے پی اور اس سے منسلک گروپوں کی بولڈ ناقد رہی ہیں اور 2019 میں انہوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی  ہاوس کمیٹی آن فارن افیئرز کے سامنے بھی اپنی بات رکھی تھی۔کول نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ انہیں ہندوستان اور بیرون ملک بی جے پی کی حمایت کرنے والے ٹرول کی طرف سے آن لائن ریپ اور جان سے مارنے کی متعدد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا، دھمکیوں کے علاوہ انھوں نے مجھے جہادی اور دہشت گرد بھی کہا ہے۔ میرے خلاف بڑے پیمانے پر جان بوجھ کر پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کیوں کہ  میرا کام ہندوستان کی حکمران جماعت کے تئیں تنقیدی   نوعیت کاہے ، جو مجھے  پاکستان کا حامی بناتا  ہے۔

یاد رہے  برطانیہ کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر نتاشا کول کو بنگلور ہوائی اڈے پر امیگریشن حکام نے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور انہیں ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔ پروفیسر نتاشا کے مطابق حکام نے انہیں 24گھنٹے بعد ائرپورٹ سے ہی واپس برطانیہ بھیج دیا۔ پروفیسر کول انڈین نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ کشمیری پنڈت ہیں اور مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اکثر لکھتی رہتی ہیں۔ وہ ایک معروف ناول نگار، لکھاری اور شاعرہ بھی ہیں۔ نتاشا کرناٹک حکومت کی دعوت پر جمہوری اور آئینی اقدار کے موضوع پر ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کیلئے بنگلور آئی تھیں۔

ہیومن رائٹس واچ  کے مطابق کچھ معاملوں میں عہدیداروں نے ویزا کی حیثیت کو منسوخ کرنے کے ثبوت کے طور پر کھل کر بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کو حوالہ دیا ہے۔برطانوی کارکن امرت ولسن کی عرضی ، جس میں  ان کے ویزا کی منسوخی کو چیلنج کیا گیا تھا ، اس کے جواب میں حکومت نے کشمیر کے بارے میں ان کی سوشل میڈیا پوسٹ اور 2020 اور 2021 میں احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف پولیس کی جانب سے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے والے مضمون کا حوالہ دیا۔ہندوستانی حکام جنوری 2024 تک ہندوستان میں کام کرنے والے او سی آئی کا درجہ رکھنے والے تقریبا 25 غیر ملکی صحافیوں کے خلاف تیزی سے سیاسی حربے استعمال کر رہے ہیں، انہیں غیر شفاف بیوروکریسی میں الجھا رہے ہیں یا بس انہیں رپورٹنگ جاری رکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔

بائیس  سال تک ہندوستان میں  رہنے والے فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیک نے کہا کہ جنوری میں وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں شو کاز نوٹس بھیجے جانے کے بعد انہوں نے ملک چھوڑ دیا کیونکہ اس کے پیچھے حکومت کا ارادہ ان کا او سی آئی کارڈ منسوخ کرنا تھا۔ انہیں بتایا گیا ایک صحافی کے طور پر کام کرنے کے لیے کہ ان کے پاس پرمٹ نہیں ہے اور ان کی خبروں نے ہندوستان کے بارے میں متعصبانہ اورمنفی تاثر پیدا کیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ڈوگنیک کو 2022 میں ایک صحافی کے طور پرکام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اور ان کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود وزارت نے اپنے فیصلے کی وضاحت یا نظرثانی کے لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

ایک ہندوستانی کمپنی کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کے فورا بعد ایک امریکی صحافی کا او سی آئی اسٹیٹس 2023 میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ امریکی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان پر کوئی خاص الزام نہیں لگایا گیا تھا اور ان کی بار بار درخواست کے باوجود اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔امریکی سکھ صحافی انگد سنگھ کو بھی حکام نے سال 2022 میں ملک بدر کر دیا تھا۔ سنگھ کے ذریعے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مقدمہ دائر کرنے کے بعد حکومت نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے ملک کے ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف 2019-20 کے مظاہروں کے بارے میں 2020 کی ایک ڈاکیومنٹری میں ہندوستان کی سیکولر اسناد کے بارے میں انتہائی منفی نظریہ پیش کیا ہے۔