اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اوروفاقی وزیربرائے ترقی، منصوبہ بندی وخصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ اومی کرون کے رپورٹ ہونے والے کیسز اور اصل کیسز کے درمیان کافی گیپ ہے اور ایسے بے تحاشا کیسز ہو رہے ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہورہے۔۔ حکومت تو یہی کرسکتی ہے کہ ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کرے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مفت ٹیسٹ کرانے کے لئے اربوں روپے خرچ کئے ،ویکسین کے لئے صرف وفاق نے پیسہ خرچ کیا اور وفاقی حکومت نے مفت ویکسین مہیا کرنے کے لئے اپنے ذرائع سے 250ارب روپے خرچ کئے ہیں۔
کورونا فنڈ میں40ارب روپے کی چوری کا الزام حکومت پر کہیں پر بھی نہیں لگا،پروسیجرل بے ضابطگیوں کے اوپر سوال اٹھائے گئے ہیں جو ادارے اس کام میں شامل تھے اس میں یوٹیلیٹی سٹورز کاپوریشن ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھا رٹی (این ڈی ایم اے) اور ایک دو دیگر ادارے شامل تھے،جن کے بارے میں اے جی پی آر کے آڈٹ پیرازآئے تھے، ان سب نے اس کا جواب بھی دیا ہے۔اے جی پی آر کی رپورٹ آتی ہے اس رپورٹ پر ادارے پیراوائز جواب بنا کردیتے ہیں اوروہ کردیا گیا۔ان چیزوں کے خریدنے یا اخراجات سے این سی اوسی کا کیا تعلق ہے جو این سی اوسی جواب دے گی۔
ان خیالات کااظہار اسد عمر نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ جس طریقہ سے ہم نے باقی ممالک کے اندر دیکھا کہ اومی کرون وائرس دوسرے وائرس کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور یہی ہم پاکستان میں بھی دیکھ رہے ہیں ،کراچی میںیہ وائرس سب سے پہلے آیا تھا اور یہا ں پرزیادہ پھیلائو پہلے شروع ہوا اور یہاں پر تو پیک کے قریب ہے اور دیکھنا ہو گاکہ یہ کتنی دیر برقراررہتی ہے ۔پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی کافی حد تک پھیل گیا اور وہاں پر مزید بڑھنے کے امکانات ہیں ، کے پی میں سوائے پشاور کے نسبتاً کم ہے اور پاکستان میں زیادہ امکانات ہیں کہ کیسز بڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔
انہوںنے کہا کہ اومی کرون ایک نیاوائرس ہے اور اس کا اثر دوسرے وائرس سے ذرا مختلف ہے، جنوبی افریقہ کے اندر یہ وائرس سب سے پہلے آیا تھا وہاں یہ دیکھا گیاتھا کہ یہ بہت تیزی سے اوپر کیا اور نسبتاًجلدی نیچے بھی آنا بھی شروع ہو گیا تھا، پاکستان میں ہمارے لئے ٹیسٹ کیس کراچی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہاں پر شروع ہوا تھااور کچھ دنوں سے 45فیصد کی مثبت شرح کے اوپر ہے ، اب یہا ں سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ کتنی دیر برقرار رہتا ہے،ہسپتالوں مریضوں کی تعداد میں اب اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمارے ہسپتالوں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور جو تشویشناک حالت میں مریض ہیں اور جن کو اکسیجن کی ضرورت ان کی تعداد میں بھی اضافہ ضرور نظر آئے گا ۔
اسد عمر نے کہاکہ عمومی طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ ویکسینیشن بہترین حفاظت کاذریعہ ہے اور اس دوران اگر کوروناوائرس ہو بھی جاتا ہے تو اس اثرات بہت زیادہ نہیں بڑھے ،ہم نے دیکھا کہ جن شہروں کے اندر سکولوں کے 12سے 18 سال کے بچوں کو زیادہ ویکسی نیشن ہوئی، ہوئی تھی یا ویکسینیشن کا عمل جاری تھا وہاں پر ہم نے کیسز کم بڑھتے دیکھے ،بنسبت ان شہروں کے جہاں ویکسینیشن کا لیول کم تھا۔انہوںنے کہا کہ جہاں پر بھی رش زیادہ ہو گا ، سب سے خطرناک وہ ہوتا ہے کہ جہاںبند ماحول ہو اورپر کھانا کھایا جاتا ہے ، ریسٹورانٹس، انڈور ڈائننگ اور شادیوں میں انڈور جو کھانا ہوتا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے ۔شادی کے کھانے کے بعد دیگر رش والی جگہیں کوروناوائرس کے حوالے سے زیادہ خطرے کا باعث بنتی ہیں۔
انہوںنے کہا کہ اومی کرون کی یہ لہرویکسی نیشن میں بہت حد تک اضافہ ہونے کے بعد آئی اور نسبتاً اموات یا مریضوں کے ہسپتال میں داخلہ کی تعدادکم نظر آرہی ہے اس میں میرے خیال کے اندر ویکسی نیشن بہت بڑاکردار ادارکررہی ہے، لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اومی کرون معمولی وائرس ہے اور اس سے ان کونقصان نہیں ہوگا،گذشتہ سات دنوں میں امریکہ میں یومیہ اموات کی تعداد 2000سے تجاوزکر گئی اور وہ ایسا ملک ہے جہاں پر بہت اعلیٰ درجے کی ویکسینیشن بھی ہوئی، ہوئی ہے ، یہ مان بھی لیں کہ اومی کرون، ڈیلٹا وائرس یا دیگر وائرس کے مقابلہ میں کم مہلک ہے لیکن انسانی جانیں اس سے پھر بھی ضائع ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوروناوائر س کا ٹیسٹ مفت میں بھی ہوتا ہے اور اسلام آباد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مفت ٹیسٹ کرتاہے اگر کسی کوٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے اوراس کے پاس ذرائع نہیں ہیں تو آپ سرکاری ہسپتال میںجہاں مفت ٹیسٹ ہوتے ہیں وہاں جاکر ضرور ٹیسٹ کرائیں۔کیا ہم سارے لوگوں کا ٹیسٹ کر پارہے ہیں توایسا ہم نہیں کرپارہے،اومی کرون کے رپورٹ ہونے والے کیسز اور اصل کیسز کے درمیان کافی گیپ ہے اور ایسے بے تحاشا کیسز ہو رہے ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہورہے۔