نواز شریف واپس آئیں گے ،شیخ رشید کو فکرمند نہیں ہونا چاہئے،رانا ثناء اللہ


لاہور(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر اوررکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان میاں محمد نواز شریف کا ملک ہے، پاکستان کے لوگوں نے انہیں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب کیا ہے ،لوگوں نے ان کو بے پناہ عزت اورپیاردیا ہے اوروہ بھی اپنے ملک اورقوم سے بے پناہ پیارکرتے ہیں ،وہ ضرورواپس آئیں گے اوراجب بھی انہوں نے آنا ہوا وہ آنے کی تاریخ کا خود اعلان کریں گے ، یہ مجھے یا کسی اور کو اعلان کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی شیخ رشید احمد کو اس حوالہ سے زیادہ فکر مند ہونا چاہئے۔

ان خیالات کااظہار راناثنا ء اللہ خان نے منشیات برآمدگی کیس میں لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت19فروری تک ملتوی کردی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ گذشتہ ساڑھے تین ، چار سال سے حکومت کی ایک ہی پالیسی ہے اور وہ ہے انتقام اورانتقام بھی گھٹیا انتقام،جتنے یہ اپنی سوچ اورفطرت میں گھٹیا ہیں اتنا ہی گھٹیا انتقال اپنے مخالفین یا اپوزیشن سے لے رہے ہیں۔

پوری (ن)لیگ کی قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اوراب ان مقدمات پر شہزاد اکبر اوران کے دوسرے ترجمان ججز کو دبائو میںلانے کے لئے روز پریس کانفرنس کرتے ہیں، قوانین میں ترامیم لارہے ہیں، اب ترمیم لارہے ہیں کہ نو ماہ میں اگر کیس کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر جج سے پوچھا جائے گا کہ کیس کا فیصلہ کیوںنہیں ہوا۔ فروغ نسیم جو  بڑے پرانے طاغوتی طاقتوںکے ایجنٹ ہیں، ان کی ساری پریکٹس کم وبیش انہیں کاموں میںگزری ہے۔جب لاہور کا دھماکہ ہوا تواس وقت وزیر اعظم اپنے گالی گلوچ برگیڈ کو لے کر بیٹھا تھا، وزیر اعظم خود بیٹھ کر بتاتا ہے کہ آپ نے کس طرح سے گالیاں دینی ہیں اورکس طرح سے آپ نے سکینڈلائز کرنا ہے، کوروناوائر س کے لئے جوبیرونی امداد آئی ہے اس میں سے ان کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے،ایک ارب روپے کے قریب پیسہ ان لوگوں میں تقسیم کیا گیا جو ان کی سوشل میڈیا ٹیم ہے اوراس معاملہ کو ہم پارلیمنٹ میں بھی اٹھا رہے ہیں۔

صدرارتی نظام کے حوالہ سے جاری بحث کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)اورپوری اپوزیشن واضح مئوقف رکھتی ہے کہ1973کا آئین متفقہ آئین ہے اس کے اوپر چاروںاکائیاں متفق ہیں، ایک اتفاق رائے سے بنے ہوئے آئین سے اگر آپ باہر نکلیں گے تو پھر شاید قومی اتفاق رائے پیدا نہ ہو پائے اور ملک ایک اور بحرانی کیفیت کی طرف چلا جائے، ملک میں 35سال صدارتی نظام رہا ہے،10سال ایوب خان، چار سال یحییٰ خان،11سال ضیاء الحق اور10سال پرویز مشرف رہا ہے یہ کون تھے ، یہ صدر ہی تھے، سارے اختیارات ایک آدمی میں تھے کوئی پارلیمنٹ نہیں تھی، اگر اس طریقہ کار سے بھلائی ہونی ہوتی تو ملک آج آگے پہنچ چکا ہوتا۔

ملک کا مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نظام نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ آئین کے اوپر عمل ہو، آئین کے اوپر عمل نہیں ہوا،74سالوں میں بار، بار آئین کو توڑا گیا۔ 1973کا متفقہ آئین دینابلاشبہ ذوالفقاروعلی بھٹو کا کارنامہ ہے اوراس وقت جو باقی قائدین تھے مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی جسے بزرگوںکا کارنامہ ہے کہ انہوں نے متفقہ آئین دیا۔ اگراس آئین کے اوپر عمل ہوتا تو تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں ہ کرکام کرتے تو ملک آج بہت آگے بڑھ چکا ہوتا ۔بار،بارآئین کو توڑاگیا اور معطل کیا گیا، کوئی نظام بدلنے میں نہیں بلکہ آئین کے اوپر پابندی کرنے اورآئین پر عمل کرنے میں اس ملک کی بہتری ہے۔