اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ اگر ہائی کورٹ میں انتظامی حکم کے تحت کسی ملازم کو نوکری سے فارغ کیا جائے گاتواس کے خلاف سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے گلدیس خان مروت کیس کے فیصلہ کی روشنی میں اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر ہو گی۔ ساراکیس یہ ہے کہ اپنا کیس سپریم کورٹ لے کرآئیں، لاء آف دی لینڈ یہی ہے کہ کوئی ہائی کورٹ حکم جاری کرے گی تواس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہو گی۔ ہم تودائرہ اختیاراورریمیڈی کی بات کررہے ہیں، ہم میرٹس پر نہیں جاسکتے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی انتظامیہ کو مثالی ہونا چاہیئے۔ کیا عدلیہ اور مسلح افواج قانون سے بالاترہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں غلط تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں اوراس حوالہ سے ایف آرز بھی درج ہوئی ہیں۔
عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی آرڈر کے تحت نوکری سے نکالے گئے ملازمین کی بحالی کی درخواستیں خارج کردیں۔جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے نکالے گئے ملازمین کی درخواستوںپر سماعت کی۔ درخواستیں فرزانہ بہادر، وحید نواز، عامر عبدالمجید، رانا محمد کاشف، شکیل رضا، شہزاد اسلم،ڈاکٹر عثمان قدوس، محمدعثمان میر، مس فائزہ میر اوردیگر کی جانب سے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔ دوران سماعت درخواست گزاروںکیجانب سے سید افتخار حسین گیلانی، افشاں غضنفر، ذوالفقار احمد بھٹہ،ظاہر حسین لغمانی اوردیگر وکلاء پیش ہوئے جبکہ وفاق پاکستان کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔
ایڈیشل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ اگر کسی ملازم کو ہائی کورٹ کے انتطامی حکم کے تحت نوکری سے نکالاجاتا ہے تواس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ عدالتوں کے اپنے اختیارات کامعاملہ ہے اورکسی شخص کو بغیر ریمیڈی کے تونہیں چھوڑاجاسکتا۔ سیینئر وکیل افتخارگیلانی نے روسٹرم پر کھڑے افراد کے معاملہ پر کہا میں اچھا محسوس نہیں کررہا کہ سارے وکیل روسٹرم پر کھڑے ہیں۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیںکہ پرانا نظام بحال ہونا چاہیئے کہ جو وکیل دلائل دے وہ روسٹرم پر کھڑا ہواوردیگر وکیل بیٹھیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا افتخار گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے موئکل کی ٹرمینیشن ہوئی ہے یا ڈی نوٹیفکیشن ہواہے۔ اس پر افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ27ستمبر2016کو ڈی نوٹیفیکیشن ہوا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے حکم جاری کیا ہے، 20جنوری2017کو نظرثانی خارج ہوگئی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار ڈیپوٹیشن پر تھا اورواپس ہائی کورٹ چلا گیا ۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ساراکیس یہ ہے کہ اپنا کیس سپریم کورٹ لے کرآئیں، لاء آف دی لینڈ یہی ہے کہ کوئی ہائی کورٹ حکم جاری کرے گی تواس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہو گی۔ افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 195کے تحت ہائی کورٹ کواجازت نہیں کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کرے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ اگر نظرثانی منظورہوئی ہے تویہ توبہت بڑی خبر ہوگی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ گلدیس خان مروت والا کیس نظرثانی نہیں بلکہ یہ کوئی اورمعاملہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ اہم معاملہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں اقرباپروری کی بنیاد پر تعیناتیاں ہوں گی انہیں کہیں توچیلنج ہونا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر انتظامی سطح پر کوئی حکم جاری ہونا ہے تواس کے خلاف درخواست سپریم کورٹ آئے گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ بحالی اس صورت میں ہو گی کہ اگر سپریم کورٹ کا حکم کالعدم قراردیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ ایسے کیس بھی تھے جو اقرباپروری کی بنیا د پرتھے توکیا وہ بھی اووررول ہو گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کی انتظامیہ کو مثالی ہونا چاہیئے۔ افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ میرے خلاف سپریم کورٹ میں جو ساری کاروائی ہے وہ غیر قانونی حکم ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم تودائرہ اختیاراورریمیڈی کی بات کررہے ہیں، ہم میرٹس پر نہیں جاسکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اورانتطامی کمیٹی اگر کوئی غلط آردر پاس کرے تواس کو کہاں چیلنج کیاجائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں غلط تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں اوراس حوالہ سے ایف آرز بھی درج ہوئی ہیں۔ افتخار گیلانی کی جانب سے پاک فوج کی مثال دینے پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا عدلیہ اور مسلح افواج قانون سے بالاترہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ درخواست گزارگریڈ12میں اسٹینوٹائپسٹ کے طور پر ڈیپوٹیش پر آیا تھا اورایبذورب ہونے کے بعد براہ راست گریڈ17میں آگیا۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کا افتخار گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 27ستمبر2016کا انتظامی آرڈر کہاں چیلنج کیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا افتخار گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک چیزپوچھ رہے ہیں اس کا جواب نہیں دے رہے۔ افتخار گیلانی کا کہنا تھاکہ میری 75سال عمر ہو گئی ہے یہ فیصلہ بری مثال ہو گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ گلدیس خان مروت کیس کاسپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ ہے اس کے تحت ہائی کورٹ کاانتظامی حکم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گا۔ افتخار گیلانی کا کہناتھا کہ وہ کیس میں کفیوژ ہو گئے ہیں۔ اس پر سید منصورعلی شاہ نے انہیںمخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف کوئی ابہام نہیں، ابہام آپ کی طرف ہے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ بڑاسادہ کیس ہے ہم بڑی دیر سے یہ کہہ رہے ہیں، کہاں چلے گئے کیوںہائی کورٹ چلے گئے، سپریم کورٹ آنا چاہیئے تھا، مروت کیس میں ابھی بھی سپریم کورٹ آسکتے ہیں۔بینچ نے دلائل سننے کے بعد درخواستیں خارج کردیں۔ جبکہ ایک درخواست گزار کی جانب سے پارٹی بنانے کی استدعا پر سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جب کیس ہی خارج ہو گیا توپھر پارٹی کیابنائیں۔ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ ججز کے خلاف کاروائی کے حوالہ سے دائر درخواستوں پرپانچ رکنی بینچ نے دن ساڑھے 11سماعت کرنا تھی اوراس بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں اس لئے باقی بچ جانے والے کیسز کی سماعت منگل کو ہو گی۔