پشاور(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رکھا ہے۔ ہم وفاق سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بجٹ، فیڈرل ڈیویزیبل پول اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت جو حصہ بنتا ہے وہ بھی پورا نہیں ملتا۔ بجلی کی رائلٹی بھی نہیں مل رہی۔ ضم شدہ اضلاع کے ساتھ پچیسویں آئینی ترمیم کے وقت جو وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں کیا جارہا۔ایف ڈی پی کا تین فیصد حصہ قبائلی اضلاع کو دیا جائے اور صوبائی حکومت اس کو صوبے کے بجائے ضم شدہ اضلاع پر خرچ کرے۔ سرتاج عزیز کمیشن میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ضم شدہ اضلاع کو سالانہ سو ارب اور دس سال تک ایک ہزار ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے دیا جائے گا لیکن 2017 سے آج تک ایک پیسہ بھی قبائلی اضلاع کو نہیں مل سکا۔ اب تک صوبے کو گیس اور تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نہیں مل سکی۔ نگران حکومتیں حقیقت میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں۔ نگران حکومت اور گورنر الیکشن ایکٹ کے مطابق خود کو حدود تک محدود رکھیں، نگران حکومت کسی بھی بہانے سے پرانے ترقیاتی کاموں میں مزید پیسے شامل کرکے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول سے گریز کریں۔ بڑے پیمانے پر ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا سلسلہ جاری ہے، اس پر پہلے بھی احتجاج کیا ہے، اب اس کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے خلاف بھی ٹرانسفر پوسٹنگ کی اجازت دینے پر احتجاج کریں گے اور الیکشن کمشنر کو بتائیں گے جس الیکشن ایکٹ کی پاسداری ان کا کام ہے انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔ خواجہ آصف کا بیان انتظامیہ کا پارلیمنٹ کی آڑ میں عدلیہ پر وار ہے۔ شہباز شریف اور خواجہ آصف انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو الگ کرلیں، پارلیمنٹ کو اختیارات دے دیں پھر کوئی عدلیہ پارلیمنٹ کے اختیارات نہیں چھین سکتی۔ انتظامیہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق دو مہینوں میں اپنا کام کرکے عزت کے ساتھ اپنے گھر جائے۔فوجی عدالتوں میں سویلین کے خلاف مقدمات کی پہلے بھی مخالفت کی ہے اب بھی ان کے مخالف ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز الاسلامی پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے نائب امیر عنایت اللہ خان، تحریکِ حقوقِ قبائل کے چیئرمین شاہ فیصل آفریدی، امیر ضلع خیبر محمد رفیق آفریدی، اختیار بادشاہ آفریدی اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات سید جماعت علی شاہ بھی موجود تھے۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ حکمرانوں اور نگران حکومتوں کی خواہش ہے کہ انتخابات وقت پر نہ ہوں۔ وفاقی حکومت اور نگران حکومتوں سے گزارش ہے کہ انتخابات کے تاخیر سے انعقاد کی خواہش ترک کردیں۔ اگر انتخابات مخر ہوئے تو آپ کی حکومتیں بھی نہیں رہیں گی۔ انتخابات کسی بھی صورت اکتوبر سے مخر نہیں ہونے چاہیئں۔ اگر انتخابات مخر ہوئے تو اسے آئین کے ساتھ کھلواڑ تصور کیا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی 14اگست کو انتخابات کی تجویز پر مشاورت کے لیے ایک میز پر بیٹھیں یا ایک ہی دن انتخابات کے لیے کسی اور تاریخ پر اتفاق کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہے، آئین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے تو ملک بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آئین پاکستان حکمرانوں کے ہاتھوں مظلوم ترین دستاویز بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب بابو اور بی بی کے درمیان میوزیکل چیئر کھیلا جاتا تھا، کبھی نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو کبھی بے نظیر بھٹووزارتِ عظمی کا منصب سنبھالتیں۔ لیکن کسی نے بھی آئین کا کوئی پاس نہیں رکھا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے بھی اسی کو اختیار کیا جائے۔لیکن آرمی چیف کی تقرری پر سیاستدان بھی کھیلتے ہیں اور پھر فوج کو بھی ان سے کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دستور کے بعد پارلیمنٹ مظلوم ترین ادارہ ہے، اسے کوئی اختیار حاصل نہیں، انتخابات کے ہونے یا تاخیر کا شکار ہونے کے حوالے سے بے یقینی کی کیفیت ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بینچ بناتے وقت اپنے ججز کو ساتھ بٹھا کر انہیں اعتماد میں لیں تاکہ بعد میں کوئی جج معذرت نہ کرسکے اور بینچ نہ ٹوٹے۔ عدلیہ آئین کی تشریح اور تعبیر کرے، انتظامیہ کو پابند بنائے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق اپنے انتظامی امور چلائے۔ اکھاڑ پچھاڑ اور تقسیم در تقسیم سے نکلنے کا واحد راستہ بروقت انتخابات ہیں۔