قبائلی علاقوں میں دوبارہ امن و امان کی صورتحال خراب کی جارہی ہے۔پروفیسر ابراہیم

پشاور (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کو دوبارہ خراب کیا جارہا ہے،قبائل محب وطن اور مغر بی سرحدوں کے محافظ ہیں یہاں امن قائم کیا جائے، جنرل پرویز مشرف کی پالیسیاں اب ختم کردینی چاہئیں، فوجی آپریشنز کے باوجود بھی قبائلی علاقوں میں مثالی امن قائم نہ ہوسکا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز الاسلامی پشاور کے مودودی  ہال میں قبائلی اضلاع کے حقوق کے لیے منعقد ہ قبائل آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر جماعت اسلامی قبائل کے رہنما ؤں تحریک حقوق قبائل کے چیئر مین شاہ فیصل آفریدی  و  جنرل سیکرٹری  مولانا وحید گل،  شیخ جان اے این پی،  مولانا رشید اللہ جے یو آئی۔ف،   ڈاکٹر جانباز آفریدی پی پی پی،  ملک نوید احمد تحریک انصاف،  ڈاکٹر فاروق افضل قومی وطن پارٹی،   اعجاز احمد آفریدی نیشنل پارٹی،ملک عظمت مسلم لیگ۔ق،  مولوی ظاہر اللہ نواسہ فقیر ایپی اور مختلف سیاسی سماجی،  تجارتی اور مختلف شعبہ ہا  زندگی سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنمابھی شریک تھے

اے پی سی میں  قبائلی زعما  اور مختلف سیاسی،  مذہبی اور تجارتی تنظیموں کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا۔ اپنے خطاب میں  پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ قبائلی عوام پر چھوڑا جائے ان علاقوں کے عوام سنبھال سکتے ہیں، قبائلی علاقوں میں امن اور اس کے بعد صحت کا بڑا مسئلہ ہے۔انھوں نے کہا کہ  امن اور صحت سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے قبائل کو اپنا حق دیا جائے، قبائلی عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کئے گئے تھے اس کو ایفا کیا جائے، قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ سے حصہ دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ قبائل کے حقوق اور امن کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس وقت قبائلی علاقوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کام ہونا چاہئے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ  حکومت قبائلی علاقوں کو سو ارب سالانہ دینا شروع کردے۔ ٹیکسوں سے نظام چلتا ہے لیکن پہلے ضم اضلاع سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں، انہیں این ایف سی اور سو ارب روپے کا پیکج دیا جائے تاکہ یہاں کے عوام کا معیار زندگی ملک کے دوسرے شہروں کے برابر ہوجائے، تب یہاں ٹیکسوں کے نظام کے نفاذ کی بات کی جائے۔ فی الحال نضم اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن کو اگلے دس سال کے لیے ٹیکس سے استثنی دیا جائے۔ قبائلی علاقوں کے لئے قومی اسمبلی کی نشستوں کو چھ سے بڑھا کر 12 اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں سولہ سے بڑھا کر چوبیس کی جائیں۔

مردم شماری میں قبائلی علاقوں کی آبادی کو درست طریقے سے درج کیا جائے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کی جائے۔ افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کی بحالی اور ویزہ کی شرط ختم کی جائے، ۔ افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قبائلی علاقوں اور پورے پاکستان کے امن کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ قبائلی علاقوں کے حقوق کے لئے کوششیں کرتے رہیں گے۔