جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران11 مقامات پر کارروائی


 سری نگر۔۔۔  شمالی اور جنوبی کشمیر میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران11 مقامات پر جماعت کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔

بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی ائے اہلکاروں نے بھارتی پیرا ملٹری دستوں کے ہمراہ یہ چھاپے بڈگام، بارہمولہ اور کپواڑہ اضلاع میں مارے۔ چھاپوں کے دوران مکینوں سے مختلف دستاویزات، الیکٹرانک ڈیواسز اور موبائل فون ضبط کیے گئے۔

این آئی اے نے جماعت اسلامی فنڈنگ کیس کے سلسلے میں پہلے ہی چار افراد کے خلاف عدالت مجاز میں چارج شیٹ پیش کردی ہے۔

بیان کے مطابق  اب تک کی گئی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ جماعت اسلامی خیراتی مقاصد جیسے کہ صحت اور تعلیم کے فروغ کے لئے رقم اکھٹا کر رہی  ہے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف عسکریت پسندی کو بھی فروغ دے رہی ہے۔

جماعت اسلامی کے ارکان بھارت کے اندر اور باہر بیت المال کی شکل میں عطیات کے ذریعے رقم جمع کر رہے ہیں۔ اس رقم سے حزب المجاہدین اور دوسری تنظیموں کو مضبوط کیا جارہا ہے۔

بھارتی  حکومت نے جماعت اسلامی کو سال 2019 میں کالعدم قرار دیا تھا۔سرینگر میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے انعقاد سے قبل این آئی اے نے وادی میں جماعت اسلامی  کے خلاف کریک ڈاؤن کو تیز تر کر دیا ہے۔

اس دوران  مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے  اور ایجنسی نے تین افراد کی جائیدادوں کو بھی قرق کر دیا۔

واضح رہے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی قدیم سیاسی و سماجی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1951 میں ڈالی گئی ہے۔ نوے کی دہائی میں جموں و کشمیر میں مسلح  تحریک شروع ہونے سے قبل جماعت اسلامی کے کئی ارکان ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب بھی ہوئے۔ ایک وقت اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پانچ ممبران رہے ہیں جبکہ مرحوم سید علی شاہ گیلانی متعدد بار شمالی کشمیر کے سوپور حلقہ انتخاب سے الیکشن جیت چکے ہیں۔ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی، مسلم متحدہ محاذ کی اہم ترین اکائی تھی۔

ان انتخابات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں بھاری پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں اور اسی کے دو سال بعد کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کی بنیادی وجہ بنی ۔