آزاد کشمیر یونیورسٹی کے زیراہتمام کانفرنس بعنوان ”کثیرالقطبی دنیا میں مسئلہ کشمیر اور بھارت کا غیرقانونی قبضہ ”کا انعقاد

مظفرآباد(صباح نیوز)جامعہ کشمیر میں ہفتہ تقریبات یوم کشمیر کے سلسلہ میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (کے آئی آئی آر) کے تعاون سے ایک روزہ کانفرنس بعنوان ”کثیرالقطبی دنیا میں مسئلہ کشمیر اور بھارت کا غیرقانونی قبضہ”کا انعقاد کیا گیا۔

جامعہ کشمیر کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ مشترکہ کانفرنس کشمیر اسٹڈیزآڈیٹورم” چہلہ کیمپس میں ہوئی۔چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی ،اسسٹنٹ پروفیسر اوررفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر اویس بن وصی ،سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کشمیر ڈاکٹر محمود حسین ، کوارڈینیٹر شعبہ بین الاقوامی تعلقات صباء اسرارفیکلٹی ممبران عامر حبیب،مدیحہ شکیل اور دیگر نے خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے شرکاء کی توجہ 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر کے منظر نامے پر مرکوز کرتے ہوئے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے طلباء کو مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ ہوئے کہا کہ بھارت بروز طاقت کشمیریوں کے پیدائشی حق،حق خودارادیت کو دبانے کے لیے ظلم و استبداد کے نئے سے نئے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی، انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکن حتی کے خواتین تک بھارتی مظالم سے محفوظ نہیں۔چیئرمین کے آئی آئی آرنے کہا کہ بھارت نہ صرف کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتا ہے بلکہ وہ کشمیر کے تشخص اور اس کی جداگانہ حیثیت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔انہوںنے کہا کہ پاکستان اور بالخصوص آزادکشمیر کی حکومتوں اور عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے کیا کرداراداکررہے ہیں۔

اسسٹنٹ پروفیسر اور رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر اویس بن وصی نے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر اور کشمیر تنازعہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی منظرنامے میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، عالمی اور علاقائی تنازعے طاقت کے مراکز میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کو اپنے اندرونی حالات درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دیرینہ مسئلہ کشمیر پر مثبت پیش رفت کو ممکن بنا سکے۔

اپنے اختتامی کلمات میں، سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر محمود حسین نے نے دلیل دی کہ موجودہ صورتحال پاکستان کے لیے مواقع اور چیلنجز دونوں لے کر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر آئی کے اعلان کے بعد سے کشمیر کے حوالے سے چین کا سرکاری نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ اسی طرح اس نے ہندوستان کے امریکی بلاک میں داخل ہونے کے بعد روس کی پاکستان کے لیے دلچسپی کے امکان کو روشن کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور کشمیر کے کاز کو آگے لائے مگر اس سے پہلے اسے اپنے معاشی اور سیاسی انتشار کو ختم کرنا ہوگا۔

کانفرنس کے دوران شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طلباء نے اپنے تین مقالے بھی پیش کئے۔ساتویں سمسٹر کے طلباء فاطمہ محمود اور اظہر زیب عباسی نے کشمیر کے آبی وسائل پر ہند پاک تنازعہ اوراس کے علاقائی امن و استحکام کے لیے مضمرات پر اپنے مقالے پیش کیے۔محققین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا خطہ پاکستان اور بھارت کے لیے بڑی اقتصادی اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور آبی ذخائر کی بہت اہمیت ہے۔ جہلم اور چناب پر ڈیم بنانے اور ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس لگانے کے بھارتی اقدامات کشمیر سے بہنے والے آبی وسائل کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔انہوںنے سندھ طاس معاہدے پر بھارت کی جانب سے پاکستان کو بھیجے گئے حالیہ نوٹس پر بھی روشنی ڈالی۔

طلباء نے اپنے مقالوں میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مداخلت کرے اور بھارت کو آبی دہشت گردی سے باز رکھے، ورنہ جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی جنگ چھڑ جائے گی۔ساتویں سمسٹر کے طالب علم راجہ بلال اجمل نے عظیم طاقتوں کے درمیان ابھرتی ہوئی جیو پولیٹیکل رقابت: کشمیر تنازعہ کے امکانات اور چیلنجزپر اپنا مقالہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان، بھارت اور چین کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا پانی کشمیر سے آرہا ہے اور وہ اسے چین سے بھی جوڑ رہا ہے، اسی طرح کشمیر بھارت اور چین کے لیے علاقائی رابطے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ دونوں علاقائی طاقتیں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی طاقتوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔ طالبات رابعہ جمیل اور اریشہ نثار نے اپنے مقالوں میں ہمالیائی خطے میں عسکریت پسندی کے بارے میں بات کی اور یہ کہ بھارت کس طرح جان بوجھ کر آب و ہوا کو خراب کر رہا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ ہمالیہ کے خطے میں اعلیٰ سیاست کے اہم کردار اور عسکریت پسندی کی بڑھتی ہوئی سطح نے عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے ارد گرد ہونے والی بحث کے سلسلے میں اس کی مطابقت میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور اس وجہ سے پورے خطے کے لیے سنگین ماحولیاتی خطرات اور شدید مضمرات کا خطرہ ہے۔

طالب علم معیز خالد نے اپنی پینٹنگ کے ذریعے بھارتی قابض افواج کے مظالم کو اجاگر کیا۔ ساتویں سمسٹر کے جناب ابوہریرہ نے اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کی مزاحمت کی تحریک کو خراج تحسین پیش کیا۔ ساتویں سمسٹر کے جناب فیضان بخاری نے کشمیری مزاحمتی گیت گایا۔آخر میں سوال و جواب کا سیشن منعقد ہوا اور طلباء میں ان کی شرکت پر سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔