سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا قول ہے کہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اگر بد بھی نیک صحبت میں بیٹھے تو نیک ہو جاتا ہےاور اگر نیک بری صحبت میں بیٹھے تو بد ہو جاتا ہے جس نے بھی اچھا کھیل پایا نیکوں کی صحبت سے پایا۔ ،،
اس قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک اچھی اور نیک صحبت ہم سب کے لیے کتنی ضروری ہے۔ صحبت اگر اچھی مل جائیں تو بہت ساروں کی زندگی سنور جاتی ہے اور اگر یہی صحبت بری مل جائیں تو زندگی تباہ و برباد بھی ہو جاتی ہے۔ گہما گہمی کی اس دنیا میں انسان کے پاس فرائض الہی ادا کرنے کے لیے وقت نہیں ، اور جب کبھی کسی سے پوچھو کہ وہ دن میں کسں حد تک حقوق اللّٰہ ادا کرتا ہے تو اس کا ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں ہوتا شام گئے جب وہ گھر لوٹتا ہے تو تھکا ہوتا ہے۔
وقت نہ ہونے پر بھی ہم اپنا بہت سارا وقت کسی نہ کسی کی صحبت میں گزراتے ہیں۔ دفتر میں کولیگز کے ساتھ ، سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں دوستوں کے ساتھ ، مختلف فنکشن میں عزیزوں کے ساتھ اور گھر سے باہر جاننے والوں کے ساتھ اور اب تو کہی آنے جانے کا تصور بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ گھر بیٹھے من پسند لوگوں کے ساتھ موبائل پہ ہی گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں اور اپنا بہت سارا وقت ان کو دیتے ہیں۔ضروی نہیں کہ ہر انسان کی صحبت اچھی نہ ہو لیکن کچھ لوگ اس معاملے میں تھوڑے بدقسمت ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو لوگوں کی پرکھ کرنا نہیں آتی اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سب جان کہ بھی انجان رہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
٫٫بنی اسرائیل میں سب سے پہلا تنزل اس وقت شروع ہوا کہ ایک شخص کسی دوسرے سے ملتا اور کسی ناجائز بات کو کرتے ہوۓ دیکھتا تو اس کو منع کرتا کہ اللّٰہ سے ڈر ایسا نہ کر لیکن اس کے نہ ماننے پر بھی وہ اپنے تعلقات کی وجہ سے کھانے پینے میں اور نشست و برخاست میں ویسا ہی برتاو کرتا جیسا کہ اس سے پہلے کرتا تھا۔ جب عام طور پر ایسا ہونے لگا تو اللّٰہ تعالیٰ نے بعضوں کے قلوب کو بعضوں کے ساتھ خلط کردیا،،
اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ بری صحبت میں اپنی مجبوریاں کی وجہ سے ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے اور ملتے جلتے ہیں اور آخر میں اس بری صحبت کا اثر ہم پر ضرور ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ بری صحبت ہے کیا ؟ بری صحبت اختیار کرنا ایسا ہی ہے کے جیسے برے لوگوں میں ٫٫اٹھنا بیٹھنا،، جو بد کردار ہو ، جن کی اخلاقی حالت پستی کا شکار ہو یا جن کی شخصیت قابل مزمت ہو۔
بری صحبت کے لوگ دین سے دور ہوتے ہیں اور اچھی صحبت کے لوگ ہمیشہ دین کے قریب ، اب اکثر لوگوں کو لوگوں کی ہی پرکھ کرنا نہیں آتی کہ فلاں شخص جس کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہے وہ دین سے دور ہے اس کی عادتیں اچھی نہیں یا اس کا رویہ منفی ہے یا اس کی سوچ مثبت نہیں تو اس کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے اسے سمجھاۓ، اس کی سوچ کو بدلیں، اس کو احساس دلاۓ کیونکہ اس کی صحبت میں ہم رہتے ہیں یہ ہمارا فرض ہے کوشیش کرے کہ اپنی اچھی عادتیں اس میں منتقل کرے اور اپنی اچھی عادتوں کا اظہار اس کے سامنے کرے کیونکہ انسان دیکھنے سے زیادہ سیکھتا ہے نسبتاً کہننے سننے کے۔
صحبت اچھی ہو یا بری اس کو چھوڑنے کا دل نہیں کرتا تو کیا ہی اچھا ہو کہ صحبت اختیار کرنے سے پہلے پرکھ کر لی جاۓ۔ دوست بناتے وقت دوستوں کو پرکھا کرو۔ دوستوں کی اچھی عادتوں کو اپنایا کرو اور اپنی اچھی عادتیں دوستوں کو اپنانے پر مجبور کیا کرو۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھو کسی کی بری صحبت آپ پر اثر انداز ہو اور اگر ایسا ہونے لگے تو وہ صحبت چھوڑ دو کیونکہ اگر آپ اپنے دوست کو اپنے جیسا نہیں بنا سکے تو اس جیسا آپ نے بھی نہیں بننا۔ صحبت ایسی ہونی چاہیے جس سے کچھ اچھا حاصل ہو جس سے دین دنیا کا فہم ملیں کیونکہ ایک اچھی صحبت انسان کو بہت کچھ عطا کرتی ہے وہ انسان کو بدل کہ اکھ دیتی ہے اس لیے صحبت اچھی ہی اختیار کرنی چاہیے۔ اور جو لوگ بری صحبت میں رہ کر ماں باپ کے لیے شرمندگی کا سبب بنتے ہیں۔ یہی لوگ اللّٰہ کی سخت ناراضگی کے حقدار ٹھہرے۔
٫٫ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عزاب الہی کی ایک بڑی وجہ بری صحبت اختیار کرنا تھی،،
سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں موبائل سب بچوں کی ضرورت بن گیا ہے وہی ماں باپ پر ذمہ داریاں بھی بڑھ گئ ہیں کہ وہ بچوں کی سرگرمیوں پر توجہ دے تاکہ ہمارے معاشرے میں امن وامان کی فضا قائم رہ سکے۔
٫٫ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے اچھے لوگوں کے ساتھ تعلق استوار کرلینے سے زندگی اچھی گزرتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی عطر والے سے دوستی کرلینا کہ آپ اس کی دوکان پہ جا کہ چاہے کچھ بھی نہ خریدے پھر بھی خوشبو کے جھونکے مفت میں ملتے رہتے ہیں ،،
امید ہے میری اس کاوش سے قارئین آپ ہمیشہ اچھی صحبت اختیار کرے گئے کیونکہ اچھی صحبت ہمیشہ کچھ نہ کچھ عطا کر کے جاتی ہے۔