لاہور کی خوبصورتیوں کا ایک حوالہ مغلیہ طرزِ باغبانی اور طرزِ تعمیر کی گواہی دیتا شالامار باغ بھی ہے۔ شاہجہاں کا ایک تاریخی تحفہ جو کشمیر کے شالیمار باغ سے متاثر ہو کر خواص کیلئے بنایا گیا تھا مگر عوام کی تفریح کا مرکز بن گیا۔اِسکی تین سطحیں ، درجے یا تخت ہیں جو شاہی خاندان ، درباریوں اور عوام کیلئے بنائے گئے جن میں نہریں ، فوارے پھول اور تالاب اس باغ کی خوبصورتی اور انفرادیت کو بڑھاتے ہیں۔اس دور میں فواروں کیساتھ بنے تالابوں میں پانی کی ترسیل کیلئے زیر زمین نہروں اور نالیوں کا استعمال حیرت انگیز ہے۔ مغلیہ دور سے ہی یہاں سیروتفریح اور درباری تقریبات کے علاوہ ثقافتی تقریبات یعنی مشاعرے اور محافل موسیقی منعقد ہوتی تھیں۔قیام پاکستان کے بعد بھی یہاں قومی اور ادبی وثقافتی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔اس باغ کی منفرد فنِ تعمیر اور خوبصورتی کے باعث 1981ءمیں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا۔شالامار باغ کی ایک اور تاریخی حیثیت یہاں میلہ چراغاں کا انعقاد بھی رہا ہے۔شاہ حسین کی وفات کے بعد سولہویں صدی کے اولین سال سے ان کی پہلی برسی کے موقع پر ہی اس میلے کا آغاز ہو گیا تھا۔لوگ عقیدت کے پھول چڑھاتے ، دئیے جلاتے اور شاہ حسین کے کلام پر دھمال ڈالتے ۔دربار پر دئیے جلانے کی رسم پورے شہر تک پھیلتی گئی۔گمان کیا جاسکتا ہے کہ شروع سے ہی یہاں ہونیوالا اکٹھ عرس کی بجائے میلے کی شکل میں ابھرا اور پورے پنجاب کا سب سے بڑا میلہ بن گیا ،برصغیر کے مختلف علاقوں سے لوگ قافلوں کی صورت اس میلے میں شریک ہونے لگے۔جو مارچ کے آخری ہفتے اتوار کو دربار سے شروع ہو کر دہلی گیٹ تک پھیل جاتا تھا۔مغلیہ دور میں میلے پر مذہبی اور روحانی سطح غالب رہی۔میلہ چراغاں کو رنجیت سنگھ کے دور میں سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے باعث سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔میلے کا ثقافتی اور روحانی رنگ نکھر کر سامنے آیا۔ لاہورئیے شاہ حسین سے اتنی عقیدت اور میلہ چراغاں سے رغبت رکھتے تھے کہ انہوں نے بذاتِ خود اپنے آپ پر ایک ٹیکس عائد کر رکھا تھا۔ جسے..چراغی دینا..کہتے تھے۔ ہر گھر میلے میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے ایک تھال میں کھیر ، پورے ، کچھ رقم اور جلتا دیا رکھ کر مزار پر آتا تھا۔پکے لائیوریئے اب بھی میلے کے دن ڈھول اور دھمال کیساتھ چادر چڑھاتے اور نقد نذرانہ پیش کرتے ہیں۔رنجیت سنگھ چراغی میں منوں تیل ، بسنتی چادروں کے علاوہ شاہی قلعے سے دربار تک دائیں بائیں پیسے نچھاور کرتے ہوئے جاتا تھا۔لاہور میں عام تعطیل ہوتی تھی۔انگریزوں کے دور میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر میلہ چراغاں شالا مار باغ کے اندر منعقد ہوتا رہا اور اس میں ثقافتی سرگرمیوں کو فوقیت دی گئی۔
پاکستان بننے کے بعد1958ءمیں ایوب خان دور میں شالامار باغ میں میلے کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی۔1966 ءمیں پنجابی ادبی سنگت کے سیکرٹری صفدر میر کی سربراہی میں کوشش کی گئی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ اس میلے میں بنگلہ دیش کے70 ادیبوں کے وفد نے شرکت کی۔ میلہ چراغاں پر پہلی یاد گار فلم بھی صفدر میر نے سنگت کے پلیٹ فارم سے بنائی۔وہ سنگت کی سالوں بعد اقبال قیصر کی فکر کی رہنمائی میں پوری توانائی سے فکری جمود توڑنے کاسفر طے کر رہی ہے۔تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے بعدوالڈ سٹی کے چیئرمین کامران لاشاری صاحب میلہ چراغاں کو دوبارہ حکومتی سرپرستی اور شالا مار باغ میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تفریح کو ترسے لوگوں کا رش دیکھ کر احساس ہوا کہ ایسے میلے ہوتے رہنے چاہئیں۔ پورے پاکستان کا ثقافتی نظارہ آنکھوں کو بہت بھلا لگا۔بڑے گلوکاروں اور فنکاروں کی پرفارمنسز کے علاوہ ہر انتظام و انصرام کمال کاہے۔ بچوں کیلئے یقیناًیہ سب بہت غنیمت ہے ، تفریح بھی اور ثقافتی ورثے سے آگاہی بھی۔ سب لوگ ہنس کھیل رہے تھے، پوری دلجمعی سے میلے کے اندر موجود تھے ، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد اس میلے کی اصل رونق لگی۔ یقیناً میلہ سنجیدہ گفتگو اور مذاکرے کی اسٹیج نہیں ہوتا بلکہ ہلہ گلہ کرنے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تاہم امید ہے کہ اگلی بار شاہ حسین کی فکر اور نظریے پر گفتگو کے سیشنز میلے سے پہلے ایک دن کسی ہال میں رکھے جائیں جس میں ملک کے نمایاں ادیبوں اور محققین کو گفتگو کے لئے مدعو کیا جائے۔رب کرے یہ میلے لگے رہیں۔