جن کا علم ،عمل،خدمات اور کردار زمینوں اور زمانوں پر محیط ہوتا ھے وہ کسی ایک حسب نسب میں تھوڑے سما سکتے ہیں!!! نہ ان کی ملکیت محدود نہ ان کا ترکہ مفقود ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کو عمر طویل عطا کی،تو حسن عمل طویل تر۔۔۔۔۔کتنوں نے کسب کیا تو نہ جانے کتنے فیض پاتے رہیں گے۔
نہ شعلہ بیاں مقرر،نہ کرشماتی سیاسی شخصیت، مگر عمر عزیز کے ایک ایک لمحے کو مقصد کے لئے کشید کرتی زندگانی۔پروفیسر خورشیداحمد،سید مودودی کی تیارکردہ ہیروں کی نرسری (nursery of heroes) کے نمایاں فرد تھے۔وہ ایک طرف اگرمصنف،محقق،مفکر،مدبر تھےتو دوسری جانب ایک مصلح،حکمت کار،ماہر قانون، پالیمینٹیرئن اور عالمی اسلامی تحریکوں کے فعال سفارتکار۔جن دو کتابوں نے مجھے پروفیسر صاحب سے متعارف کراکر ان کے علم کا گرویدہ بنایا وہ “اسلامی نظریہ حیات” اور “تعلیم۔۔۔نظریہ،روایت،مسائل” ہیں۔مغرب کےعلم اور مادیت کی تہذیب سے متاثر نوجوان کے ذہن میں ابھرنے والے سوالوں کے تسلی بخش جوابات انہی مضامین کے مرھون منت ہیں۔ ابوحنیفہ ہوں کہ ابن تیمیہ،امام غزالی ہوں کہ سید مودودی۔۔۔۔۔۔ دعوت و عزیمت کی صدیوں پر محیط خدمات پر امت اپنے مجددین کی ھمیشہ مرہون احسان رہے گی مگر پروفیسر خورشید احمد جیسے انسانوں کے آگے بھی ھمارے سر احترام سے خم رہیں گے جنہوں نے اپنی بامقصد زندگی،پاکیزہ عمل،بے لوث خدمات اور داعیانہ اسلوب سے ان جلیل القدر ہستیوں کے کام کو امت کےلئے قابل استفادہ بنانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔
پروفیسر خورشید احمد سید مودودی کی علمی وراثت (legacy) کی آخری کڑیوں میں سے ایک تھے۔ جو زمانوں کا مالک اور انسانوں کارب ہے،اس کی قدرت،مشیت اور حکمت سے یقینا کچھ بعید نہیں۔ اس کے اپنے فیصلے اور اپنی ترتیب ھے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ تحریر،تدبیر،تفکر اور تحرک کے میدان میں “ان کا مثل” ھم شاید جلد نہ پاسکیں۔۔۔۔۔۔
مت سہل ‘ھمیں’ جانو،پھرتا ھے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے’انسان’ نکلتے ہیں