اللہ بخشے مولانا اکرم ہمدانی کو، 50-55 سال قبل، ظہر با جماعت کا سلام پھیر کر انہوں نے مسجد کے دروازے بند کرا کر پہلی صف کے بزرگوں سمیت 15-20 نمازی روک لیے۔ وہ نمازی جنہیں عالم سمجھا جاتا تھا۔ وہ جو تحریک ختم نبوت میں آگے تو تحریک رد بدعات میں بھی قائد۔ سبھی متشرع اور دیندار۔ چیئرمین مسجد کمیٹی سمیت کئی ارکان موجود تھے۔ بقیہ نماز کے بعد مولانا نے پہلے شخص سے آغاز کیا: ” جناب نماز تو سنائیے”! جواب میں مہیب سناٹا اور طویل خاموشی! کسی کا ثنا پر سانس پھول گیا تو کوئی صرف سورت اخلاص کا حافظ۔ ان وی آئی پی میں سے کوئی ایک بھی نماز نہ سنا سکا۔ پھر مولانا نے بڑی دلسوزی سے اس عام المیے کی طرف توجہ دلا کر انہیں روزانہ نماز سکھانا شروع کر دی۔
زندگی کے کسی شعبے کو کھرچیے، یہی کچھ ملے گا۔ کراچی بار میں شریعہ اکیڈمی کا تربیتی پروگرام تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک معزز جسٹس مقرر اور میں اسٹیج سیکرٹری تھا۔ پیشہ ورانہ آداب کے ذکر میں وہ وکلا کو دھیمے انداز میں دلائل دینے کی بات کرتے ہوئے بولے: “بھئی وہ کس فلسفی کا قول ہے کہ سب سے بیہودہ آواز گدھے کی ہے”.کیا کیا جائے، انہوں نے قرآن با ترجمہ پڑھا ہی نہیں تو گدھے والی آیت کا انہیں کیا علم ہو سکتا تھا۔ دستور پاکستان میں تمام قوانین کے قرآن و سنت کے مطابق ہونے کی پابندی ہے۔ گویا ارکان عدلیہ کو قرآن و سنت کا اتنا علم ضرور ہو کہ انہیں قوانین کی تشریح میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ پرچی بھیج کر جج صاحب سے اصلاح کروائی۔
1999 کی فوجی بغاوت کے بعد آئین شکن نے بری بھلی عدلیہ پر وہ وار کیا کہ آج اسے عدلیہ کہنا مشکل ہے۔ اب عدالتی فیصلوں میں قرآن و سنت کی تلاش انگریزی محاورے کے مطابق بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنا ہے۔ کتے مارنے کا صریح حکم، بلا تخصیص باولا و آوارہ، احادیث میں ہے، فرمان نبوی ہے: “اگر دیگر مخلوق کی طرح کتا ایک مخلوق نہ ہوتی تو میں بلا امتیاز کتے مارنے کا حکم دیتا۔(باقی کتوں سے قطع نظر) تم کالے کتے کو جہاں پاؤ مار دو”. ترمذی کی اس حدیث سے مماثل اور احادیث بھی ہیں۔ یہ امر البتہ متفق علیہ ہے کہ آوارہ اور باولے کتے کو بہر صورت مار دیا جائے۔ لیکن انتظامیہ جب کبھی کتا مار مہم چلاتی ہے، عدالتیں کتوں کی ناز برداری کا حکم امتناہی جاری کر دیتی ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے باولے کتوں کے علاج کا حکم دیتے ہوئے پنجاب میں کتا مار مہم روک دی۔ خیر سے یہ رعایت کر دی کہ لاعلاج کتوں کو بسہولت موت دی جائے۔ ویٹرنری آفیسر نے بہت سر پٹخا: “جناب, لوگوں کی شکایات ہی پر کتا مار مہم شروع کی گئی ہے. آوارہ کتے کاٹتے ہیں”۔ لیکن معلوم نہیں کس تحقیق کی بنا پر عدالت نے قرار دیا کہ آوارہ کتے خوراک کی کمی کے باعث کاٹتے ہیں۔ یہ نامعلوم تحقیق بیان کر کے حکم ہوا کہ کتے مارنے کی بجائے انہیں کھانا دیا جائے (روزنامہ دنیا 18 فروری 25)۔ کہاں گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینی حکم؟ اور عوام کی شکایات کہاں گئیں؟
عام زندگی سے کٹے عشرت کدوں میں مقیم جج حضرات کو مسائل کی کیا خبر؟ مسائل سے واسطہ تو انتظامیہ کا پڑتا ہے وہی عوام کو جواب دہ ہوتی ہے. چنانچہ اب لا علاج کتوں کو لاہور انتظامیہ نے مارنا شروع کیا تو کتوں کے آئینی حقوق اٹھائے ایک صاحب نے عدالت میں واویلا کیا کہ دو ہفتوں میں ہزار سے زائد کتے مار دیے گئے ہیں۔ عدالت نے الزام کے سچے جھوٹے ہونے کا جائزہ لیے بغیر ہر مرض کا وہی معروف علاج یعنی حکم امتناہی جاری کر کے سماعت مدت غیر معینہ کے لیے ملتوی کر دی (روزنامہ دنیا 25 مارچ 2025). اب گلیاں ہیں, بازار ہیں, باولے کتے ہیں,حکم امتناعی ہے اور ہم ہیں دوستو! آوارہ کتوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔
میں اس مرتب بستی میں رہتا ہوں جہاں ہر بلدیاتی مسئلہ فورآ دور ہو جاتا ہے لیکن کتوں کے غول کچھ کرتے رہیں، صدر ٹرمپ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ انتظامیہ یوں بے بس ہے: “جناب, عدالتی حکم ہے کہ کتوں کو نہ مارا جائے”۔ درجنوں مہلک واقعات نہیں، میری اپنی سنیے۔ گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایک آوارہ باؤلا کتا مجھے پروفیسر سمجھ کر حملہ آور ہوا۔ وہ مجھے ذرا کھرچ لیتا تو اسے پتا جل جاتا کہ یہ تو اندر سے پینڈو ہے۔ (میں بوقت ضرورت ہی پروفیسر بنتا ہوں ورنہ عام پینڈو رہتا ہوں۔ خالق کائنات نے عام افراد بڑی کثرت سے بنائے ہیں)۔ میری پہلی ٹھوکر پر کتے نے دو قلا بازیاں کھائیں، بھاگنے لگا پر کامیاب نہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا لاشہ سڑک پر پڑا تھا۔ میری جگہ کوئی خاتون یا بچہ ہوتا تو کیا ان کے ورثا بقیہ زندگی حکم امتناعی پر گزارتے۔ جناب چیف، کیا جواب ہے اس سوال کا؟ انتظامیہ کہتی ہے کہ عدالتی حکم ہے کہ کتے نہ مارے جائیں۔ میں نے آج صبح صرف ایک غول میں 17 کتے پائے۔
ضلعی عدلیہ کے ساتھ میں نے 24 سال گزارے۔ اس کی پیشہ ورانہ اہلیت پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کاش عدلیہ کے امام اعظم یعنی مولانا اکرم ہمدانی یعنی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی واقعتا مولانا ہمدانی بن جائیں۔ انہوں نے قبر میں پاؤں لٹکائے بزرگوں کا پول کھول کر مرنے سے پہلے آنہیں نماز سکھا دی تھی۔ چھوڑیے کتا مار مہم، جب یہ طے ہے کہ ہر قانون قرآن و سنت کی چھلنی سے گزر کر ہی قانون کہلائے گا تو کیوں ہمارے ججوں کو قرآن و سنت کی عام فہم اور روز مرہ باتوں کا علم بھی نہیں ہوتا۔ مولانا اکرم ہمدانی کے نمازیوں کی طرح چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے ججوں کو معمولی اور عام فہم معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔ جناب چیف، انہیں باترجمہ قران ہی پڑھا دیجئے۔
میں نے شریعہ اکیڈمی میں یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو بھی ایسے چند بنیادی کورس کرائے جائیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب مشیر عالم سے میرے دو گھنٹے کے اجلاس میں منصوبہ تسلیم کر لیا گیا۔ محترم نے منصوبے سے کلی اتفاق کیا۔ پھر وہ سپریم کورٹ چلے گئے اور میں ریٹائر ہو گیا۔ کچھ نہیں ہو سکا۔ شریعہ اکیڈمی یہ کام آج بھی کر سکتی ہے، عالمی برادری میں ہماری عدلیہ کے مقام کا سب کو پتا ہے۔ جناب چیف، اپنی عدلیہ کی پیشہ ورانہ اہلیت بڑھائیے۔ ریکوڈک کا ساڑھے چھ ارب ڈالر کا جرمانہ ہی یاد کر لیجئے۔ بہت ہو گیا، بات بات پر سالوں لٹکتا حکم امتناعی متوازن ذہن جاری نہیں کر سکتا۔ توجہ کیجئے۔ مہلت عمل کم ہے۔ وہ۔۔۔۔۔وہ دیکھو فرشتہ اجل سامنے کھڑا ہے۔