غیرسیاسی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے علی الرغم سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عمرقید کی سزا چھبیس مہینوں ہی میں ختم ہو گئی۔ اُس وقت کے بلندقامت وَکیل جناب شیخ منظور قادر نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ بڑی مہارت سے لڑا جس کی بدولت اُن کا جماعتِ اسلامی سے تعلق اُن کی زندگی میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا۔ میاں طفیل محمد نے اُس عظیم الشان انقلاب کی روداد بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1954 سے جو تعلق شیخ منظور قادر سے قائم ہوا، وہ بتدریج بےتکلفی میں ڈھل گیا۔ مَیں ایک روز اُن سے ملنے گیا اور اُن کی خدمت میں تفہیم القرآن کا سیٹ پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں اللہ ہی کو نہیں مانتا“۔ مَیں نے عرض کیا: ”آپ ہزاروں کتابیں پڑھ چکے، تفہیم القرآن بھی پڑھ ڈالیے تاکہ آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور وُہ کیسے آدمی ہیں“۔ میرے اصرار پر اُنہوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا۔ وہ کچھ ہی عرصے بعد جگر کے سرطان میں مبتلا ہو گئے۔ مَیں اُن کی عیادت کے لیے اسپتال گیا۔ وہ بڑے مضمحل نظر آئے۔ مجھے دیکھ کر انگریزی میں بولے: ـI have made peace with my Lord, Mian Sahib! now I am prepared to meet Him.
(مَیں نے اَپنے رب سے معاملات درست کر لیے ہیں میاں صاحب! اب مَیں اُس سے ملاقات کے لیے تیار ہوں)۔
کچھ دنوں بعد اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، لیکن تفہیم القرآن کے مطالعے سے اُن کی کایا ہی پلٹ گئی تھی، مگر یہ سوال غور طلب ہے کہ شیخ منظور قادر جیسی عظیم المرتبت شخصیت نے اپنے خاندان کی درخشندہ رَوایات سے انحراف کیوں کیا اور وُہ اَپنے والدِ گرامی سر شیخ عبدالقادر کی عظمت اور مسلمانوں کی بیداری کے عہدساز کردار سے لاتعلق کیوں ہو گئے۔ اُن کے بارے میں اُن کے انتہائی بےتکلف دوست جناب الطاف گوہر نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ صدر جنرل ایوب خان کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کے ذمےدار شیخ منظور قادر تھے کہ وہ عوام کو سرے سے کوئی اہمیت دیں نہ اُنہیں اُمورِ مملکت میں شامل کیا جائے۔ اُنہیں طاقت سے دبائے رکھنا ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ صدر اَیوب اُن کی ذہانت اور قانونی اہلیت سے اِس قدر متاثر تھے کہ دستور سازی کا پورا عمل اُن کے سپرد کر دیا۔ اُنہوں نے اپنے فلسفۂ سیاست کے مطابق ایک ایسا آئین وضع کیا جس میں تمام اختیارات صدر ایوب خان کی ذات میں مرتکز کر دیے گئے اور عوام کے حصّے میں بنیادی اور سیاسی حقوق سے محرومی آئی۔ اِس عوام دشمنی پر مدیر نوائےوقت جناب حمید نظامی نے شیخ منظور قادر کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔
شیخ منظور قادر کا گھرانہ دو تین صدیوں سے علم و فضیلت کا گہوارہ چلا آ رہا تھا۔ اُن کے والد شیخ عبدالقادر نے جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا زمانہ تھا۔ شیخ عبدالقادر 1874 میں لدھیانہ (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ یوں وہ عمر میں ڈاکٹر محمد اقبالؔ سے تین سال بڑے تھے۔ اُن کے والد شیخ فتح دین محکمہ مال سے وابستہ تھے۔ ابھی شیخ عبدالقادر پندرہ سال کے تھے کہ اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ رشتےداروں نے آنکھیں پھیر لیں۔ بیوہ ماں نے عالمِ بےچارگی میں اپنے بیٹے کو ایک انگریز افسر کے پاس حصولِ روزگار کے لیے بھیجا۔ انگریز افسر نے اُس نوجوان کے چہرے سے اُس کی ذہانت کا اندازہ کر لیا اور کہا ’’مَیں اِس کے اندر اَیک عظیم الشان شخصیت پاتا ہوں، اِسے ہر قیمت پر تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔‘‘ انتہائی نامساعد حالات میں نوجوان نے تعلیم جاری رکھی اور اَیف سی کالج لاہور سے بی اے کر لیا۔ اُس کے بعد ایک انگریزی اخبار ’آبزرور‘ کے بتدریج چیف ایڈیٹر بن گئے۔ اُنہوں نے اردو اَدب و صحافت میں نئے دور کا آغاز کیا اور اَپریل 1901 میں رسالہ ’مخزن‘ نکالا جو مختلف جہتوں میں روشنی کا مینار ثابت ہوا۔ اُس کے پہلے شمارے میں شاعرِ مشرق محمد اقبالؔ کی نظم ’’ہمالیہ‘‘ شائع ہوئی جس نے پورے ہندوستان میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا۔
وہ 30 برس کی عمر میں بیرسٹری کے لیے ولایت چلے گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اعلیٰ تعلیم کے لیے محمد اقبالؔ بھی ولایت آئے ہوئے تھے۔ علم و تحقیق کے یہ دونوں عاشق گاہےگاہے ملاقاتیں کرتے رہتے۔ دریں اثنا شیخ عبدالقادر نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس نے اُنہیں شہرتِ دوام عطا کی۔ حضرت اقبالؔ نے شیخ صاحب سے کہا کہ وہ شاعری ترک کر کے اپنا زیادہ وَقت علم و تحقیق میں صَرف کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جو اِقبال کے اندر اَیک مایہ ناز انقلابی شاعر کو پنپتا دیکھ رہے تھے، اُنہوں نے اِس رائے سے اختلاف کیا اور مشورہ دِیا کہ پروفیسر تھامس آرنلڈ سے اِس موضوع پر بات کی جائے۔ پروفیسر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبالؔ کے استاد تھے اور اَب لندن میں تھے۔ اُن سے مشورہ کیا گیا، تو اُنہوں نے اقبال کی شاعری کو پوری قوم کے لیے مفید قرار دِیا۔ اِس فیصلے کے نتیجے میں اقبالؔ کی شاعری کے چشمے پھوٹتے اور دَریا بہتے رہے۔ اُنہی چشموں اور دَریاؤں نے ہندوستان کے علاوہ عالمِ اسلام کے اندر اِنقلابی روح پھونک دی۔سر شیخ عبدالقادر کا سب سے بڑا اِعزاز یہ ہے کہ وہ ’’بانگِ درا‘‘ کے دیباچہ نگار ہیں۔ اقبالؔ نے بانگِ درا میں اُن کے نام گیارہ شعر لکھے ہیں۔ اُن میں شیخ عبدالقادر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا، اِس وقت سب سے بڑی ضرورت عوام کی زندگی سے جہالت کی تاریکی دور کر کے اُسے عشقِ رسولؐ کے نور سے آشنا کرنے کی ہے۔ اگر ہم اِس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اُمید بندھ جاتی ہے کہ یہ قوم عظمتِ رفتہ کا احیا کر سکے گی۔
شیخ عبدالقادر فروری 1950 میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور وُہ عمر بھر مختلف جہتوں میں علامہ اقبالؔ کی نصیحت پر عمل کرتے رہے۔ اُن کا بیٹا شیخ منظور قادر سیدھی راہ سے بھٹک گیا، تو سید مودودی کی تفہیم القرآن سے وفات کے وقت اُس کی روح کو ابدی سکون حاصل ہوا اَور یہ فیض اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے پیروکاروں کو سر دھڑ کی بازی لگانے کا بےپایاں جذبہ سے ہمیشہ تروتازہ رکھے گا۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ