اسلام آباد(صباح نیوز)سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو پانچ وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں سے چار منتخب اور ایک نگران وزیر اعظم تھے۔امریکہ، چین اور سعودی عرب سے تعلقات، کرتار پور راہداری اور عالمی دوروں کے ذریعے فوجی سفارتکاری کا تصور بھی سامنے آیا۔
محکمہ زراعت کی اصطلاح بھی اس دور کی ایجاد ہے جبکہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ایسے ناموں کا تکلف بھی جاتا رہا اور فوج کو براہ راست مخاطب کیا جانے لگا۔سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا یہ فقرہ بھی مشہور ہوا کہ 2018 تبدیلی کا سال ہے۔
میڈیا میں فرینڈلی ایڈوائس یعنی دوستانہ نصیحت اور مثبت رپورٹنگ کا چرچا رہا۔ جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں پانامہ کیس، ڈان لیکس، بلوچستان حکومت کی تبدیلی، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر معاملات میں مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار رہی۔دوسری طرف اسی عرصہ میں پسندیدہ تصور کی جانے والی تحریک انصاف نے 2022 میں وہ سفر ایک ہی سال میں طے کر لیا جو مسلم لیگ ن کو طے کرنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں ہی ان چھ سال میں کبھی محبوب اور کبھی معتوب رہیں۔
” بی بی سی ”آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور کے سیاسی اثرات پر ملک کی دو بڑی جماعتوں کے ان رہنمائوں کی رائے جاننے کی کوشش کی جو اقتدار اور اپوزیشن دونوں میں اپنی پارٹی قیادت کے قریب سمجھے جاتے رہے۔ان کے ساتھ سینیئر دفاعی تجریہ کاروں کی آرا کو بھی شامل کیا گیا تاکہ چھ سالہ دور کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے لائے جا سکیں۔2016 میں جب جنرل باجوہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے تو ان کی تقرری کسی سرپرائز سے کم نہیں تھی۔
وہ سنیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر تھے اور انھیں فیورٹ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے خود انھیں اس عہدے کے لیے چنا تھا۔ان کی مدت ملازمت صرف نومبر 2019 تک تھی لیکن بعد میں تحریک انصاف حکومت میں انھیں تین سال کی توسیع مل گئی۔سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف کا انتخاب ہمیشہ سے سیاسی فیصلہ رہا ہے، آرمی چیف کا تقرر کبھی بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا اور جنرل باجوہ کی تقرری بھی اسی سلسلے کی ایک مثال تھی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ جب 2016میں میاں نواز شریف نے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کرنا تھا تو مشاورت کے عمل میں میرا ووٹ جنرل باجوہ کے حق میں ہی تھا۔ آرمی چیف بننے سے پہلے کئی اہم معاملات پر ان کی سوچ اور گفتگو منفرد تھی۔منتخب افراد کی بالادستی، جمہوری حکومتوں کو فیصلہ سازی کا اختیار، نان سٹیٹ ایکٹر ز کی حوصلہ شکنی، انڈیا سے دائمی دشمنی پر نظر ثانی، ان موضوعات پر ان کی سوچ عمومی رائے کے برعکس تھی۔
دوسری طرف سینیئر دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کی رائے اس سے بالکل برعکس ہے۔ان کے مطابق جنرل باجوہ کے متوازن سیاسی نظریات کا مصنوعی تاثر بنایا گیا تھا۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ چھ سال میں جنرل باجوہ نے اس حوالے سے عملی کام نہیں کیا۔ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد کے حالات پر سینیٹر عرفان صدیقی کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ آرمی چیف بننے کے بعد جنرل باجوہ اپنے تمام تر منفرد نظریات کے باوجود ادارے کی سوچ میں ڈھلتے چلے گئے۔
جنرل باجوہ کی سوچ اور ادارے کے نظریات میں فرق تھا اور اس دوران جنرل باجوہ کی انفرادی سوچ بڑی حد تک کم ہو گئی۔ سیاسی بالا دستی، انڈیا سے تعلقات اور سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جنرل باجوہ ادارے کی سوچ اور نظریات کے سامنے بند نہ باندھ سکے اور اسی رو میں بہہ نکلے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق میں نہیں سمجھتی کہ وہ آرمی چیف بننے سے پہلے کچھ اور تھے اور بعد میں تبدیل ہو گئے۔ جنرل باجوہ خطرات مول لینے والے (Risk Taker) نہیں بلکہ ایک روایت پسند جنرل تھے جنھوں نے ادارے کی پرانی پالیسیوں پر ہی عمل کیا۔ عرفان صدیقی کی رائے میں جنرل مشرف کے معاملے پر بھی جنرل باجوہ نے آئین و قانون کا راستہ اپنانے کی بجائے ادارے کی سوچ کو اپنایا۔ جنرل باجوہ کے دور میں میڈیا کو خاص سانچے میں ڈھالا گیا، آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا گیا، اس کا رخ موڑا گیا۔
مزید یہ کہ کچھ لوگوں کو تیر دے کر کمیں گاہوں میں بٹھا دیا گیا اور وہ اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بناتے رہے۔ یہ سب کچھ جنرل باجوہ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا رہا۔ مسلم لیگ ن کے عرفان صدیقی واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ 2011 میں لاہور کے جلسے کے بعد جو بیج بونے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور اس پودے کی نشوونما کی جا رہی تھی۔ اس کی پرورش سے جنرل باجوہ نے انحراف نہیں کیا۔
شاید اس میں ان کی رضا کارانہ مرضی نہ ہو لیکن عمران خان کو جیسے تیسے اقتدار میں لانے کی ادارے کی سوچ کے آگے بند نہ باندھ سکے۔ جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور میں کئی شائستہ حدود پامال ہوئیں اور مداخلت بے حجاب اور سر عام ہو گئی۔ ایسا نہیں کہ ماضی میں سیاست میں مداخلت نہیں ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ ایسی مداخلت ڈھکی چھپی ہوتی تھی لیکن ان چھ سال میں سب کچھ بے پردہ ہو گیا۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی رائے میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی بجائے عمران خان کو اقتدار میں لانے میں جنرل باجوہ کا اہم کردار تھا۔
پوری فوج الیکشن 2018 میں عمران خان کے ساتھ کھڑی تھی اور اس کے لیے ہر طرح کی راہ ہموار کی گئی۔ تحریک انصاف کے افتخار درانی یکسر مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں تحریک انصاف کی حمایت اپوزیشن کا الزام تو ہو سکتا ہے لیکن تحریک انصاف 2018 کے الیکشن میں پہلے ہی وننگ پوزیشن میں آ چکی تھی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔
ہو سکتا ہے کہ ادارے نے اپنے مفاد کے لیے کچھ کیا ہو کیونکہ ہمارے معاشرے میں ملٹرائزیشن آف پالیٹکس بھی ایک حقیقت ہے۔افتخار درانی کے مطابق الیکشن میں بھی 15 سے 20نشستوں پر ہم معمولی فرق سے ہار گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ الیکشن جیتنے کے بعد بھی مسلم لیگ ق، اختر مینگل، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی خود ہمارے پاس آئے کیونکہ ہم جیت چکے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے ان کو ہماری طرف بھیجا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما افتخار درانی نے جنرل باجوہ کے نام کی بجائے ان، ادارے اور سسٹم کے الفاظ زیادہ استعمال کیے۔ افتخار درانی کی رائے کے مطابق سسٹم، اداروں کی پوزیشن اور عمران خان کی پوزیشن میں بنیادی فرق عمران خان کی کرپشن کے خلاف مہم کا تھا۔سسٹم نے اس کو قبول نہیں کیا کیونکہ سسٹم اشرافیہ کے لیے کام کرتا ہے اور عمران خان نے اس رویے کو چیلنج کیا۔کرپشن کے خلاف مہم کے دوران سسٹم عمران خان کو ہاں تو کر رہا تھا لیکن مزاحمت بھی جاری تھی۔ چونکہ سسٹم اور ادارے اس اینٹی کرپشن مہم کو سپورٹ نہیں کر رہے تھے اس لیے شریف فیملی اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو اس دوران سہولت ملتی رہی۔ان کے مطابق دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ سسٹم اس چیز کا عادی نہیں تھا کہ اعلی عہدے پر فائز کوئی شخصیت کیمرے کے سامنے اور کیمرے کے بغیر بھی ایک ہی جیسا موقف رکھتی ہو۔