اسلام آباد(صباح نیوز)وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے لی گئی گھڑی جتنی مالیت میں فروخت کی اس کا 20 فیصد تو قومی خزانہ میں جمع کراتے، انہوں نے اپنے اثاثوں میں اس کو ظاہر نہیں کیا، انہیں اس قوم کا نوجوان اس کی سزا دے گا، نواز شریف اور آصف زرداری نے توشہ خانہ سے گاڑیاں لیں تو وہ ان کے زیر استعمال ہیں، انہوں نے فروخت نہیں کیں، عمران خان تمام اداروں پر الزام تراشی اور سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے رہے، اب ان کے روزانہ کی بنیاد پر سکینڈلز سامنے آ رہے ہیں، امریکی مداخلت سمیت کئی الزامات سے انہوں نے یوٹرن لیا، اس ملک کو اس وقت اتفاق رائے کی ضرورت ہے، عمران خان ہوش کے ناخن لیں، سب کو مل کر فیصلے کرنا ہوں گے، کوئی ایک لیڈر، جماعت یا ادارہ ملک کو اس گرداب سے نہیں نکال سکتا اس کیلئے اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔
معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے، وہ روزانہ نئے شوشے چھوڑتے ہیں، جھوٹ بولنا ان کا وطیرہ بن گیا ہے، سائفر کے نام پر ایک جھوٹا بیانیہ گھڑا گیا کہ امریکہ نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی، اب خان صاحب نے اس پر بھی یوٹرن لے لیا اور کہا کہ وہ بات پیچھے رہ گئی ہے، ہم امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، پہلے وہ شہباز شریف کے بطور وزیراعظم نئے آرمی چیف کے تقرر سے ہی انکاری تھے تاہم اب اس سے یوٹرن لے کر کہتے ہیں کہ یہ استحقاق وزیراعظم کا ہے، اس پر نواز شریف یا آصف زرداری سے مشورہ کیوں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پر حملہ کا واقعہ ہوا جو افسوسناک ہے، ہر جماعت اور حکومت نے اس کی مذمت کی، اس حملہ کا ذمہ دار موقع سے پکڑا گیا، جس پولیس نے اسے حراست میں لیا وہاں ان کی حکومت ہے، حملہ آور کا بیان سامنے آنے کے بعد پھر نئے تین نام دے دیئے، اس سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ انہیں کچھ ہو گیا تو انہوں نے چار نام لکھ کر محفوظ رکھے ہوئے ہیں، صوبہ کے اعلی پولیس حکام نے یہ واضح موقف عدالت میں دیا کہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو ہمیں حکم دیں گے تو ہم عمران خان کی طرف سے نامزد کردہ افراد پر ایف آئی آر دے سکتے ہیں، عمران خان اپنی حکومت ہوتے ہوئے ایف آئی آر اندراج نہ ہونے کی مظلومیت کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کا بیڑا خود غرق کیا، ملک کی قومی ہم آہنگی کو خود تباہ کیا، ملک کے تمام اداروں پر الزام تراشی کی اور سیاسی جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بناتے رہے، میڈیا پر قدغنیں لگائیں، اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ ایک صحافی کو دینے سے انکار کر دیا گیا کہ اس سے دوست ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر مشکل سے توشہ خانہ کی تفصیل دی گئی جس سے روزانہ ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے، جب عمران خان کو اس کا علم ہوا کہ یہاں سے تحفے لے کر فروخت کرنے کا معاملہ سامنے آنے سے ان کی بدنامی ہونے والی ہے تو اب اس حوالہ سے مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں کہ ہم نے پیسے دے کر یہ تحفے لئے،یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں بھی گیا تاہم عمران خان کے وکلا نے بنیادی سوال کا جواب نہیں دیا، پہلے ان کا موقف تھا کہ میرے تحفے میری مرضی تاہم سوال یہ اٹھا کہ آپ بہت ایماندار آدمی ہیں، آپ نے توشہ خانہ سے یہ تحفے خریدے تو یہ آپ کا اثاثہ بن گئے، الیکشن کمیشن میں گوشواروں میں یہ اثاثے ڈیکلیئر کرنے ہوتے ہیں تاہم ایسا نہیں کیا گیا تاہم بعد ازاں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں تبدیلی کرکے کچھ رقم ظاہر کی گئی، عمران خان نے الیکشن کمیشن کو اس کی وضاحت دینا تھی اور جتنے میں یہ اثاثے بیچے تھے قیمت خرید سے جو زائد منافع حاصل کیا، کیا اس پر ٹیکس ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا یہ موقف کہ یہ تحفے باقی لوگوں نے بھی لئے ہیں، آصف زرداری نے گاڑیاں لیں اس وقت ملک میں سکیورٹی انتہائی خراب تھی، قومی اداروں کو دہشت گردی کا سامنا تھا، آصف زرداری کو یہ گاڑیاں اپنی حفاظت کیلئے دی گئیں، انہوں نے یہ گاڑیاں اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہیں اور آج بھی ان کے زیر استعمال ہیں، جو کوئی تحفے دے تو اس کو زیر استعمال دیکھ کر تحفہ دینے والا خوش ہوتا ہے تاہم اگر اس کو مارکیٹ میں بیچ دیا جائے تو پھر اس پر تحفہ دینے والا کیا سوچے گا، عمران خان کے اس اقدام سے پاکستان کی عزت نیلام ہوئی کہ جس ملک نے یہ تحفہ دیا وہ بکتے بکتے اسی کے پاس واپس پہنچ گیا، میاں نواز شریف نے بھی گاڑی لی لیکن وہ اس وقت بھی ان کے زیر استعمال ہے، آصف زرداری اور نواز شریف نے یہ گاڑیاں اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہیں اور کس مد سے لیں وہ بھی ظاہر کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک نامور صحافی اپنے پروگرام میں تحفے خریدنے والے کو سامنے لایا جس نے یہ اقرار کیا کہ وہ جہاں بھی ضرورت پڑے اس حوالہ سے بیان دینے پر تیار ہے، ان تحفوں کی مالیت 6 ملین ڈالر تھی جو مجھے کمپنی کی جانب سے بتایا گیا تھا، مجھ سے 5 ملین ڈالر کا تقاضا کیا گیا کہ یہ تحفے خرید لوں تاہم 2 ملین ڈالر میں اس کا سودا ہوا، اب یہ بتایا جائے کہ یہ رقم کس چینل سے پاکستان آئی، کیا یہ منی لانڈرنگ تو نہیں جو عمران خان کا پسندیدہ موضوع ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں سیاسی رہنمائوں پر جبر کئے گئے لیکن وہ جھکے نہیں، فواد چوہدری ایک وکیل ہیں،
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم نے لندن کی عدالت میں اس الزام پر کیس دائر کرنا ہے، ہمیں اپنے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے، چیف جسٹس پاکستان اپنے ادارے، اپنی اور اس قوم کی عزت کیلئے اس کا نوٹس لیں۔ انہوں نے کہا کہ اس گھڑی کی قیمت غیر معمولی ہے جو آرڈر پر بنی اور یہ دنیا میں ایک ہے، یہ کوئی شیلف آئٹم نہیں، اس کی قیمت کا تعین وہی کر سکتا ہے جس نے اس کی قیمت ادا کی، ایک گھڑی ساز سے عمران خان نے قیمت کا تعین کیسے کرا لیا، اس کا تخمینہ 10 کروڑ لگایا گیا جو 2 کروڑ دے کر 5 کروڑ میں فروخت کر دی گئی، عمران خان اس کی رسید دیں، اس پر جو ٹیکس دیا گیا وہ بھی بتائیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اس پر ضرور کیس کریں، وہ صحافی اور خریدار اس کا جواب دیں گے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، خریدار کا یہ موقف ہے کہ مجھے عدالت میں بلایا جائے میں اس کے ثبوت دوں گا، اس نے سارے نام دیئے ہیں کہ اس کے پاس یہ گھڑی کون لے کر آیا تھا، عمران خان اکثر اخلاقی تقاضوں کی بات کرتے رہتے ہیں، وہ اپنے جیسا بااصول غیرت مند کسی دوسرے کو سمجھتے ہی نہیں، اگر وہ گھڑی 38 کروڑ میں بیچی تھی اور خزانہ میں 2 کروڑ جمع کرائے تو اتنا فرض تو بنتا تھا کہ وہ 20 فیصد تو جمع کراتے، ابھی تو القادر سمیت دیگر کتنے سکینڈلز سامنے آنے ہیں، یہ دوسروں کو پھنساتے پھنساتے خود اپنے دام میں پھنس چکے ہیں، عمران خان آج بھی پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کے کہنے پر ان کا اپنا وزیراعلی بھی بیان نہیں دیتا اور آپ پھر اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، اگر اتنے بے بس ہو تو گھر چلے جاو۔
اس موقع پر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ماضی میں ورثہ میں ملنے والے مسائل کو وزیر خارجہ حل کر رہے ہیں، گرے لسٹ سے پاکستان کا نکلنا اس کی واضح مثال ہے، خیبرپختونخوا میں 10 سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام فریقین کے ساتھ مل کر جو سفر شروع کیا تھا تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اس پر پانی پھیر دیا،پنجاب، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں جو چیف ایگزیکٹوز بنائے گئے ہیں اس سے عمران خان کی چوائس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وزیراعلی خیبرپختونخوا آج اپنے گھر نہیں جا سکتے، زلفی بخاری نے کہا تھا کہ ہم نے توشہ خانہ سے لی گئی گھڑی جسے بیچی ہے اس کا نام سکیورٹی وجوہات پر سامنے نہیں لا سکتے، خیبرپختونخوا میں ان کے وزیر دہشت گردی میں ملوث ہیں، اگر خیبرپختونخوا کی پولیس انہیں سکیورٹی نہ دیتی تو یہ حالات نہ ہوتے، کرپشن کی بنیاد پر ملازمت سے نکالے جانے والے فرد کی اولاد ہمیں کرپشن کے بارے میں سبق پڑھاتی ہے، اگر ان کا اتحادی وزیراعلی ان کی بات نہیں مانتا تو اسے ہٹا دیں، اپنی ٹائیگر فورس میں سے کسی کو وزیراعلی بنا دیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان پر حملہ کی سب سے پہلے مذمت کی لیکن وہ میڈیکل بورڈ کی طرف کیوں نہیں جاتے، یہ چیزیں سوالیہ نشان ہیں، ارشد شریف کے معاملہ پر جس طرح سیاست کی جا رہی ہے اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ اس کو خراب کیا جا رہا ہے ۔۔