عمران خان کا سارا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ،رانا ثناء اللہ


اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کا سارا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔ عمران خان پر فائرنگ کرنے والے گرفتار ملزم محمد نوید کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق نہیں ، اس کا کسی مذہبی گروہ سے بھی تعلق نہیں ، یہ چھ، سات سال سعودی عرب میں رہا ہے اور فروری میں واپس آیا ہے۔ عمران خان کے لانگ مارچ اسلام آباد لانے کے دو اہداف ہیں ، ایک آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنانا اوردوسرا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیزکے دورہ پاکستان کو روکنا، کیونکہ اگر وہ نہیں رکتا تو وہ 16یا17 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان آرہی ہے، اس سے پاکستان مستحکم ہو جائے گا، یہ عمران خان کے وارے نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملک ڈوب جائے، تباہ ہو جائے، ان کا توایجنڈا ہی یہ ہے۔عمران خان کے لانگ مارچ سے سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان متاثر ہو سکتاہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وقار اور خرم ، ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہیں، ان کو پتا تھا کہ اس جگہ کے اوپر فائرنگ ہونی ہے۔ بلاتردیدارشد شریف پر فائرنگ کینیا کی پولیس نے ہی کی ہے، وہاں پر کوئی ناکہ نہیں تھا، پولیس والے ان دونوں بھائیوں کے جاننے والے لوگ ہیں۔ کمیشن بھی اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔ پولیس نے ارشد شریف کو کیوں ٹارکٹ کیا، پیسے لے کرکیا، پیسے کس نے دیئے، یا توبتادیں ارشدشریف کی پولیس کے ساتھ کوئی دشمنی تھی۔

ان خیالات کااظہار رانا ثناء اللہ خان نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ دونوں صوبوں میں ، حکومت ساتھ، انتظامیہ ساتھ، پولیس کی حفاظت، چند ہزار لوگ نکلے ہیں اور کسی بڑے شہر میں تین، چار مقامات پر 100یا150سے زائد بندے نہیں نکلے۔ چھوٹے شہروں میں کہیں 30ہیں کہیں 40ہیں، لوگوں نے اس فتنے اور فسار پر مبنی سیاست کو مستردکردیا ہے، اب کون سی چیز باقی رہ گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ گورنر راج کی منظوری دے گی اور وزیر اعظم ، صدر مملکت کو ایڈوائس کریں گے تو وہ اس کو لٹکا نہیں سکیں گے اور وہ چیز نافذ ہو جائے گی۔ گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے فیصلہ گھنٹوں اور دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کا معاملہ ہے اور یہ میری اپنی سیاسی کارکن کے طور پر رائے ہے۔ دوہفتے اسے اور ایکسپوز ہونے دینا چاہیے اس کے بعد فائل بھی مکمل ہو جائے گی ، کاغذات بھی پورے ہو جائیں گے اور اس کے بعد اگر حکومت فیصلہ کرتی ہے تو پھر ٹھیک ہے کیونکہ یہ فیصلہ وزرات داخلہ نے خود نہیں کرنا بلکہ حکومت نے کرنا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایک ایسی صوبائی حکومت جو خود ہی لوگوں سے سڑکیں بلاک کروائے ، خود ہی 8،10یا15لوگوں کی حفاظت کرے اوروہ لوگ موٹروے اور قومی شاہراہیں بند کریں ، کروڑوں لوگ پریشان ہوں اور پورا صوبہ رُک جائے، توایسی صوبائی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے لئے ہی آئین میں یہ شق رکھی گئی ہے۔ اس حوالے سے کابینہ اور اتحادی حکومت فیصلہ کرسکتی ہے اور اس سلسلہ میں صدر مملکت کا کوئی کردار نہیں اور صدر مملکت نے صرف وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے۔ صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے اور وہ اپنے ناک پر بیٹھی مکھی بھی خود سے نہیں اڑاسکتا۔ انہوںنے کہاکہ گورنر راج کے نفاذ کے لئے ریڈلائن کاآغاز ہو چکا ہے، گزشتہ تین روز سے 15لوگ ویگن میں بیٹھ کرآتے ہیں اور آکر گاڑی کو سڑک پر کھڑا کرکے گاڑی میں سے پانچ ٹائر نکال کر آگ لگاتے ہیں اوراس کے بعد ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں اور اس کے بعد سیلفی بنا کر اور دور تک ٹریفک دکھا کرکہتے ہیں کہ دیکھیں یہ ساراعوامی سمندرعمران خان کے حق میں احتجاج کرنے آگیا ہے اگر لوگ ان کو روکنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے جہاں یہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں پولیس دونوں اطراف بیرئیر لگا کر ان کی حفاظت کرتی ہے کہ کوئی ان تک پہنچ نہ سکے۔عمران خان جب لاہور سے شاہدرہ پہنچا تواس کے ساتھ سات یا آٹھ ہزار لوگ تھے،کون سی جگہ ہے جہاں ایک لاکھ یا50ہزار لوگ اس کے ساتھ شامل ہوئے ہوں، اس کے بعد8، 10، 11اور12ہزار تک یہ تعداد گئی ہے پھرساڑھے تین سے چار ہزار تک آگئی ہے اور جس جگہ عمران خان کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے وہاںپر اس کے ساتھ 1500آدمی تھے۔

رانا ثناء اللہ خان  نے کہا کہ کینیا میںقتل ہونے والے صحافی ارشدشریف کو ہی گاڑی میں گولی لگی اور کسی شخص کو گولی نہیں لگی، ٹارگٹڈ فائرنگ ہوئی ہے ، فائرنگ کرنے والوں کو اس بات کا علم تھا کہ ارشد شریف گاڑی چلا رہا ہے یا دوسرا بندہ گاڑی چلا رہاہے۔ ٹارگٹ کر کے فائر کئے گئے اور وہ جاکرصرف ارشد شریف کو ہی لگے، اگر یہ قتل ہے تو پھر دوبندے خرم اور وقار باہر نہیں ہیں،یہ بندے قتل یا وقوعہ میں ملوث ہیں اورشامل ہیں۔ یہ کینیا میں ارب پتی لوگ ہیں، ان کے وہاں پر بڑے سلسلے ہیں، حکومت میں بھی ان کا کافی عمل دخل اور اثرورسوخ ہے، جب تک تھوڑا سخت ہاتھ نہ ڈالا گیا تو شاید وہاں سے درکار چیزیں نہ ملیں ، جب وہ چیزیں مل جائیں گی تو یہ بندے تواس سے علیحدہ ہے ہی نہیں، اب یہ کہ اُن کے تعلقات کس، کس سے ہیں او رارشد شریف ان کے پاس پہنچا کیسے کیونکہ وہ پہلے سے ان کو نہیں جانتا تھا، مجھے تو کوئی شک نہیں ملزم بالکل سامنے ہیں، ایک کا نام وقار ہے اور ایک کانام خرم ہے لیکن شواہد سامنے آنے کہ بعد یہ بات کرنابڑی مناسب اور بڑی مدلل ہو گی۔ ارشد شریف ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں تھا تو پھر کیسے ان کے پاس پہنچ گیا۔ میں حتمی بات نہیں کرتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ ارشدشریف کے حوالے سے جاری کیا گیا تھریٹ الرٹ بھی فرمائشی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کی قانونی حیثیت اس وقت بنے گی جب انکوائری کمیشن کے قلم سے ایک رپورٹ سامنے آئے گی پھر اس کے اوپر مقدمہ بھی درج ہو گا اورپھر اس کے اوپران کوباہر سے لایا بھی جاسکے گا، فیکٹ فائنڈنگ کو اس وقت تک ہم کسی مقدمہ کی بنیاد نہیں بناسکتے جب تک انکوائری کمیشن اس کی تصدیق نہ کرے ۔دو، تین ہفتوں میں ہم مزید درکار انفارمیشن اکٹھی کر لیں گے ۔