آڈیو لیک، چیف سیکرٹری، آئی جی کے پی علی امین اور شہری کو گرفتار کرے، رانا ثنا اللہ


اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد کہا ہے کہ عمران خان اپنے ہی کارکنوں کی لاشیں گرانا چاہتے ہیں وفاقی دارالحکومت پر کسی صورت مسلح جتھے کو چڑھائی نہیں کرنے دیں گے۔ خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری، آئی جی کو خبردار کرتا ہوں اس بات کا نوٹس لے، دونوں کو گرفتارکیا جائے۔ ایسے فسادیوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ پی ٹی آئی لانگ مارچ میں خونریزی چاہتی ہے، جس کے ہمارے پاس ثبوت ہیں، اگر ہمت ہے تو اس آڈیو کو جھوٹا ثابت کرکے دکھائیں۔

پریس کانفرنس  میں وزیرداخلہ نے پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیو سنا دی، مبینہ آڈیو میں گنڈاپور کی ایک شخص سے بندوقیں اور بندے لانے کی بات ہوئی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ فتنہ مارچ قوم کو تقسیم اور فساد برپا کرنے کی سازش ہے، عمران خان نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، گھرکے بھیدی کو عمران خان نے پارٹی سے نکال دیا، مارچ میں اپنے بندوں کی لاشیں گرا کے اداروں پرالزام لگائیں گے، عمران خان کو کوئی فکرنہیں کہ ملک کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ آج آپ کے سامنے ایک ثبوت پیش کرنے جا رہا ہوں، عمران خان اسلام آباد میں صرف جلسہ کرنے نہیں کرنے آ رہا، سابق وزیرعلی امین گنڈا پور کی گفتگو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، علی امین گنڈا پورکی ایک نامعلوم شخص سے فون پر گفتگو ہوئی، علی امین گنڈا پوراس شخص سے پوچھتا ہے کیا پوزیشن اوربندوقیں کتنی ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ کس منہ سے کہہ رہا ہے کہ پرامن مارچ کررہا ہوں، اسے شرم آنی چاہیے، بندوقیں، بندے اسلام آباد، راولپنڈی کے بارڈر پر کس لیے لا رہا ہے؟ بندوقوں کے ساتھ کیا یہ امن کا پیغام پھیلائیں گے، اس سے ظاہرہوتا ہے یہ شیطانی مارچ اور فتنہ،فساد، لاشیں گرا کر ایک قومی سانحہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، اپنے مقصد کے لیے ایک صحافی کی تصویروں کو کینٹینر پر استعمال کیا گیا، اب کوئی شک نہیں رہا یہ ملک کو فساد، فتنہ سے دو چار کرنا چاہتا ہے، اس فتنے کا سر ابھی سے کچلنا چاہیے ورنہ یہ قوم کو کسی حادثے سے دو چار کر دے گا، بطورِ وزیرداخلہ یہ میری ذمہ داری ہے، اگر ہم کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو پھر یہ آوازیں نہیں آنی چاہیے کہ پر امن احتجاج کی اجازت دی جانی چاہیے، یہ بندہ توآئین وجمہوریت کوتسلیم ہی نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہتا ہے میں چھوڑوں گا نہیں، ہماری،اداروں کی ذمہ داری ہے، یا تو پی ٹی آئی والے مبینہ آڈیو گفتگو کو غلط ثابت کرے، اس کا فورنزک آڈٹ کرا لیتے ہیں، اگر یہ گفتگو درست ثابت ہوجاتی ہے تو ایکشن لینا درست ہے، ہم ہرقیمت پر دارالحکومت میں شہریوں کی تمام املاک کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے، دارالحکومت پر کسی صورت مسلح جتھے کو چڑھائی نہیں کرنے دیں گے۔ خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری، آئی جی کو خبردار کرتا ہوں اس بات کا نوٹس لے، دونوں افراد اس وقت خیبرپختونخوا میں موجود ہیں، گرفتارکیا جائے۔ اگر اس قسم کا کوئی گروہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تو براہ راست آپ ذمہ دارہونگے، پنجاب کے چیف سیکرٹری، آئی جی سے کہوں گا عمران خان کے ساتھ مسلح لوگ موجود ہیں، گجرات سے اس قسم کے لوگوں کے شامل ہونے کی اطلاعات ہیں، گجرات میں بھی بندے جوڑے جارہے ہیں، چیف سیکرٹری،آئی جی پنجاب ایسے لوگوں کے خلاف فوری کریک ڈاون کریں۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بدبخت شیطان اس ملک میں انارکی چاہتا ہے، چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب ایکشن لیں، وفاقی ادارے پوری طرح الرٹ ہیں آنے والے دنوں میں بھرپورایکشن لیں گے، کچھ لوگوں کواس نے گمراہ کیا ہوا ہے، وہی 10 سے 12 افراد کا ٹولہ ہر جگہ پہنچا ہوتا ہے، یہ وہی ٹولہ ہے جو جلسوں، لبرٹی چوک میں ہوتا ہے، لاہور کے شہریوں نے اس فتنہ مارچ کو بری طرح مسترد کیا ہے، لاہور میں 8 سے 13 ہزارسے تعداد زیادہ نہیں بڑھی، انہی لوگوں کووہ اسلام آباد لیکرپہنچے گا، والدین سے اپیل ہے اپنے بچوں، عزیزوں کو سمجھائیں، والدین بچوں کو شیطانی،خونی مارچ میں حصہ لینے سے روکیں، ہم اپنا فرض پوری ذمہ داری سے نبھائیں گے کوئی کسرنہیں اٹھارکھیں گے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے الرٹ ہیں، ہمیں پوری تسلی ہے علی یہ وہی بندہ ہے، ہمیں تو پتا ہے بندوقیں کہاں سے لے رہا ہے، یہ بڑا حساس معاملہ ہے، ہماری رپورٹس ہے یہ اس طرح کا سین بنائیں گے اور لوگوں کی لاشیں گرانے کا یہ لوگ کام کریں گے، لاشیں یہ گرائیں گے تو تصادم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہو گا، عمران نیازی نے لاشیں گرانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے، علی امین گنڈا پور اس وقت خیبرپختونخوا میں ہے اگراسلام آباد ہوتے تو گرفتار کر چکے ہوتے، کیا آپ جب کوئی واقعہ ہو گا تو پھر ان لوگوں کو روکیں گے، ہم پہلے ان کو روکیں گے، ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اس بات کومیڈیا میں شیئرکرنا بھی ضروری تھا، وفاقی حکومت نے آئین وقانون کے مطابق ہی افسران کے خلاف کارروائی کرنی ہے، گجرات کی ایکٹویٹی میسج دے رہی ہے چودھری پرویزالہی کے نوٹس میں ہو گا، وزیراعلی پنجاب کو نوٹس لینا چاہیے، یہ ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے ہرحربہ استعمال کریں گے۔مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میری سربراہی میں 13 رہنماوں کی کمیٹی بنائی گئی ہے، کمیٹی کا مقصد تمام صورتحال پر بات چیت کی جائے،

وزیراعظم نے کہا کمیٹی سے رہنمائی لیکر ذمہ داری کو پورا کرونگا، 13رکنی کمیٹی میں تمام سینئرز لوگ موجود ہیں، کمیٹی کا مقصد فتنہ مارچ کے تمام معاملات کو رکھا جائے، یہ بندوقیں اکٹھی اورہم کیا ان سے مذاکرات کے لیے جائیں گے، دودن پہلے فواد چودھری نے خود مذاکرات کا کہا، ہماری طرف سے کہا گیا سیاست میں مذاکرات بہتر عمل ہوتا ہے، آج فواد چودھری کہتے ہیں یہ گھبراگئے ہیں، مریم اورنگزیب نے درست کہا ہماری طرف سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے، ایسے فسادیوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کی حدود میں مسلح، غیر مسلح ہوٹلوں میں نہ ٹھہریں، اس حوالے سے سیکیورٹی مکمل الرٹ ہے، اگرکوئی بندہ پنجاب، خیبرپختونخوا کی حدود میں ہے تو وفاقی تحقیقاتی ادارے کسی بھی جگہ ایکشن کر سکتے ہیں، اس سے پہلے آئین وقانون کا تقاضا ہے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو پہلے کارروائی کا کہا جائے، مسلح جتھوں کوکسی قیمت پرمعاف اورکسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی ۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ارشد شریف کی افسوسناک موت کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح انہوں نے گزشتہ روز ایک صحافی کی تصویروں کو لانگ مارچ میں ڈسپلے کیا، اور جس طرح سے اظہار افسوس کرتے رہے، انہوں نے اپنے مذموم مقصد کے لیے استعمال کیا، اس کے بعد اس قسم کی منصوبہ بندی میں کوئی شک نہیں رہا کہ آدمی ایک فتنہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس فتنے کا سر ابھی کچلنا چاہیے ورنہ یہ اس ملک کو کسی حادثے سے دوچار کر دے گا، بطور وزیر داخلہ یہ میری ذمہ داری ہے، اگر ہم کوئی قدم اٹھاتے ہیں، اس پر میں نہیں سمجھتا کہ یہ آوازیں آنی چاہئیں کہ پرامن احتجاج ہے، اور اس کی آئین میں گنجائش ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر علی امین گنڈاپور اسلام آباد کی حدود میں ہوتا تو ہم اب تک اس کو گرفتار کر چکے ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی جگہ پر امن و امان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کارروائی کرکے گرفتار کرسکتی ہے لیکن قانون اور سیاسی عمل کا تقاضہ ہے کہ اس صوبے کی حکومت، چیف سیکریٹری اور آئی جی کو کہا جائے کہ وہ یہ عمل کرے۔