دماغی و نفسیاتی صحت سے متعلق نیشنل مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن شروع کرنے کی ضرورت ہے، صدر عارف علوی


اسلام آباد(صباح نیوز)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع اور وسیع تر مشاورت سے دماغی و نفسیاتی صحت سے متعلق نیشنل مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی سکالرز، مشہور شخصیات، سوشل میڈیا کی بااثر شخصیات اور کمیونٹی لیڈروں کو لوگوں اور کالجوں کے طلبا کو نفسیاتی اور ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی دینے کے لئے شراکت دار بنانا ہوگا، پاکستانی عوام کو درپیش ذہنی صحت کے مسائل کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تیز رفتار ردعمل کا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے دماغی صحت کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں چیئرپرسن قومی کمیشن برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا، کنٹری ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او گونارتھنا مہیپالا، ڈین شفا تعمیر ملت یونیورسٹی محمد طاہر خلیلی، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم، ڈین ایف ایم ٹی آئی ڈاکٹر رضوان تاج، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ایئر یونیورسٹی ڈاکٹر عظمی منصور، پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی سے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز ڈوگر، ڈاکٹر آصف کمال اور دیگر نے شرکت کی۔ صدر مملکت نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع اور وسیع تر مشاورت سے دماغی و نفسیاتی صحت سے متعلق نیشنل مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہیلپ لائن کی مدد سے لوگوں کو ان کی ذہنی صحت کے بارے میں مشاورت اور معلومات فراہم کی جا سکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبوں کے علاوہ غیرسرکاری تنظیموں کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی تعاون کا نیٹ ورک قائم کرنا ہوگا، دماغی صحت کی دیکھ بھال کو فروغ دینے اور نفسیاتی علاج کے بارے میں منفی رائے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ تیز ترین بنیادوں پر انسانی وسائل پیدا کرنے، نرسوں کو ضروری تربیت فراہم کرنے، ہیلتھ ورکرز کے لئے قلیل مدتی ڈپلومہ کورسز شروع کرنے اور پرائمری ہیلتھ کیئر میں دماغی صحت کی بہتری کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ سے زائد افراد کا ملک ہے اور دنیا میں ذہنی صحت کے اشاریوں میں سب سے پیچھے ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک میں 3 کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں، پاکستان میں 500 سے بھی کم نفسیاتی ماہرین موجود ہیں جس کی وجہ سے 80 فیصد لوگ دماغی صحت کے عام امراض کا علاج نہیں کر پاتے۔

صدر مملکت نے ابتدائی مرحلے میں ذہنی بیماریوں کی روک تھام کے لئے بروقت علاج کی سوچ اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی سکالرز، مشہور شخصیات، سوشل میڈیا کی بااثر شخصیات اور کمیونٹی لیڈروں کو لوگوں، کالجوں کے طلبا کو نفسیاتی اور ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی دینے کے لئے شراکت دار بنانا ہوگا۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستانی عوام کو درپیش ذہنی صحت کے مسائل کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تیز رفتار ردعمل کا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کنٹری ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او گونارتھنا مہیپالا نے کہا کہ ان کا ادارہ ذہنی صحت کی خدمات کی فراہمی، آگاہی پیدا کرنے اور اس کے بارے میں منفی نظریات کو کم کرنے کیلئے متعلقہ افراد اور این جی اوز کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کی بہتری پر مسلسل گفتگو، کمیونٹی کی سطح پر بنیادی معلومات اور تعلیم کی فراہمی کیلئے کم مدتی ڈپلومہ پروگرامز اور پرائمری ہیلتھ کیئر نظام میں ذہنی صحت کی بہتری کو مربوط بنانے جیسے اقدامات سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈین شفا تعمیر ملت یونیورسٹی محمد طاہر خلیلی اور سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ایئر یونیورسٹی ڈاکٹر عظمی منصور نے کہا کہ علاج سے احتیاط بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالب علموں اور نوجوانوں کو صحت مند انداز زندگی اور منشیات کے استعمال کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنی چاہئے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر عرفان مصطفی اور تسکین ہیلتھ انیشیٹو کے طحہ صابری نے کہا کہ ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شبانہ سلیم، ڈین ایف ایم ٹی آئی رضوان تاج، ڈی ای ڈی پمز ارم نوید نے کہا کہ پاکستان نے باضابطہ طور پر ذہنی صحت اور نفسیاتی مدد (ایم ایچ پی ایس ایس) ماڈل کا اجرا کر دیا ہے جو کہ ڈیجیٹلائز حقوق پر مبنی اور عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں اور پائیداریت پر مبنی ہے جس کا مقصد ذہنی صحت کے ماہرین کی استعداد کار میں اضافہ اور بین الشعبہ جاتی تعاون کو فروغ دینا ہے۔