”تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو“۔(القران)
اس قلم کار نے جنرل ضیا ءکی آمریت میں1985ءمیں پہلے غیر جماعتی انتخابات دیکھے تھے۔ تب سے اب 2018ءتک نو الیکشن اور ایک ریفرنڈم کو کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ہر انتخاب میں دھاندلی کا الزام لگتا رہا۔2013ءکے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر ہی بس نہ کی گئی بلکہ تحریک انصاف نے ایک طویل دھرنادیا۔مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرنے والے میاں نواز شریف دھرنوں سے زیر نہ ہوئے تو عدالتی فیصلوں کے زریعے انہیں ایوان اقتدار سے باہر کردیا گیا۔
انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن)کو اقتدار سے باہر رکھنے کےلئے کوئی”دقیقہ فروگزاشت“نہ کیا گیا۔ایک پارٹی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کے لئے صرف نون ہی نہیں پ،جیم،عین،میم یا جو کوئی بھی نقصان دہ ہو سکتا تھا،اس کو مکمل طور پر ”قابو “میں رکھا گیا۔2018ءکے منصفانہ انتخابات نے تو پوری قوم کی ہی نہیں بین الاقوامی اداروں کی آنکھیں بھی کھول دیں۔
الیکشن کمیشن اور کچھ اور اداروں نے بے احتیاطی ہی نہیں مجرمانہ اقدامات کا ارتکاب کیا۔انتخابی نتائج نے ماضی قریب کی متحارب سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے تین دن بعد ہی متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔اس اپوزیشن نے 2013ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے سے طرز عمل کو اختیار کیا تو معاشی طور پر تباہ حال پاکستان کی حکومت کو آسانی سے چلانا جناب عمران خان کے بس میں نہیں ہو گا۔
عمران صاحب کےلئے حکومت بنانا آسان کام نہیں مگر جن لوگوں نے بڑی تعداد میں انہیںنشستیں دلوائی ان سطور کی اشاعت تک ”وہی لوگ “مرکز،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو اقتدار کی راہداریوں تک پہنچا دینگے۔
پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ہم اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔اﷲ کرے اصحاب بست و کشاد اختلافات کم کرتے ہوئے ملکی سلامتی اور معیشت پر توجہ دے سکیں۔ہمیں غلطیوں کے محاسبے کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔خان صاحب کو انتخابات میں جیت مبارک ہو۔
عمران خان کی انتخابات جیتنے کے بعد کی تقریر کو یار لوگ ہمہ پہلو اور خوبصورت قرار دے رہے ہیں۔ایسی تقاریر پچھلے انتخابات سے قبل بھی انہوںنے بہت کی تھیں۔بہت سے اعلانات جن پر خیبر پختونخوا میں عمل درآمد کےلئے کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہ تھی،وہ عمران نہ کرسکے۔
اب بھی انہوں نے نہ صرف اعلانات دہرائے بلکہ جیسے”وزیراعظم ہاﺅس میںنہیں رہوں گا، پروٹوکول نہیں لوںگا“وغیرہ کا اعلان بھی کیا ہے۔ارادے مضبوط ہوں تو عمل درآمد چنداں مشکل نہیں۔نااہل نواز شریف تو خان صاحب کو ایک آنکھ بھاتا ہے،نہ بھاناچاہیے مگر جناب جس سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا اسی کے احکامات سے تو جہانگیر ترین بھی نااہل ہوئے۔ان کے حوالے سے تو خان صاحب آپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
آپ سے زیادہ متحرک تو جہانگیر ترین ہیں،ہارس ٹریڈنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔یہ سب دیکھ کر ہمیں تو یقین نہیں آرہا کہ آپ اپنے وعدوں پر عمل درآمد کر سکیں گے۔کاروباری آدمی صدقہ نہیں کر رہا،صاف ظاہر ہے سرمایہ دار کی تمام تر سرمایہ کاری، سرمایہ دگنا نہیں کئی گنا کرنے کے لئے ہوتی ہے۔آپ کو وزیر اعظم اور کسی اور کو پنجاب کا وزیر اعلی بنانے کے لئے جناب ترین مہنگے ترین گھوڑے خرید رہے ہیں۔اس سرمایہ کاری کا منافع وہ غریب قوم کے خزانے سے پورا کرینگے۔
ریاست مدینہ کی جناب عمران آپ بہت بات کرتے ہیں،اس ریاست کی بنیاد رکھنے والے آقا حضرت محمد ﷺتقاریر کم اور عمل زیادہ کرتے تھے۔آپ کے طویل خطبات میں خطبہ حجة الوداع کی مثال دی جاتی ہے جو اجتماعی و انفرادی زندگی گزارنے کے لئے ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ خطبہ بھی چند نکات پر مشتمل ہے۔کوئی بہت طویل دستاویز نہیں۔
جناب عمران یقینا یہ بات آپ کے علم میں ہو گی کہ ہمارے آقاسراپا عمل تھے۔وہ بات کبھی نہ کہتے جس پر عمل نہ کیا ہو۔خود گڑ کھا کے دوسروں کو گڑ نہ کھانے کی تلقین کبھی نہ فرماتے۔غزوہ خندق کے موقع خندق کھود کھود کر صحابہ کرام ؓکی بھوک سے حالت غیر ہو جاتی تھی ۔
حضرت ابوطلحہ ؓسے مروی ہے کہ”ہم نے رسول اﷲ ﷺسے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ کھول کر دکھائے،جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔یہ سن کر آپ ﷺ نے اپناشکم مبارک کھول کر دکھایا۔اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے“۔(ترمذی)
جناب خان دوسروں کو وصحیت اور خود میاں فصیحت سے کام نہیں چلتا۔آپ ریاست ِمدینہ کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھیں سیدنا عمر فاروق ؓکے دور میں آپ کے پاس ایک نوجوان آتا ہے اور شکایت کرتا ہے کہ اس نے کشتی کے مقابلے میں گورنر مصر عمر بن العاص ؓکے بیٹے کو پچھاڑ دیا تھا۔گورنر کا بیٹا اپنی شکست برداشت نہ کر سکا اور نوجوان پر تشدد کی انتہا ءکردی۔نوجوان نے قمیص اٹھا کر تشدد کے نشانات دکھائے۔حج قریب قریب تھا حضرت عمر فاروق ؓنے گورنر عمر بن العاص ؓکو خط لکھا کہ حج کے موقع پر اپنے صاحبزادے کو بھی ساتھ لائیے گا۔حج کے بعد آپ ؓنے معاملے کی جانچ پڑتال کے بعد اس نوجوان کو کہا کہ گورنر کے بیٹے کی پشت حاضر ہے اپنا بدلا لے لو۔نوجوان بدلہ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا تو فاروق اعظم ؓنے کہا ”معززین کا بیٹا ہے اسے خوب مارو“۔
خان صاحب ریاست مدینہ کا عشر عشیر بھی نافذ کرنا ہے تو ترین و بدترین کی تمیز ختم کرنا ہو گی۔ترینوں سے فاصلہ قائم نہ کر سکے تو دیگر بڑے بڑے دعوﺅں پر عمل درآمد خاصا مشکل ہو گا۔
اپنے مخالفین پر قانون کے مطابق کاروائی ضرور کریں مگر انتقام کو دور پھینکتے ہوئے۔یہاں بھی ہم ریاست مدینہ کے خلیفہ چہارم کی مثال آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ دشمن نے سیدنا علی ؓکے منہ پر تھوک دیا تو آپ اس کے سینے سے اتر گئے اور فرمایا کہ” میں تجھے اﷲکے لئے قتل کرنا چاہتا تھا لیکن تم نے مجھ پر تھوک دیا اور اب درمیان میں میری ذات آگئی ہے لہٰذا میں نے تجھے معاف کر دیا“۔ایک کالم میں ریاست مدینہ سے متعلق ا س سے زیادہ مثالیں دینا مشکل ہے۔آپ جب خلوص دل سے ریاست مدینہ سے متعلق رہنمائی لینا چاہیں گے تو تاریخ اسلام کی مستند کتابیں معاون ثابت ہونگی۔
یاد رکھیںکامیابی کے موقع پر کسی گھمنڈ میں مبتلا ہونے کی بجائے جھک کے رہیے گا، جس ذات کو سروری زیباہے اس نے کہا ہے کہ
”تو اپنے رب کی حمد کے س
اتھ اس کی تسبیح کرو“۔(القران)