رمضان نیکیوں کا موسم بہارجوہر سال ہم پر سایہ فگن ہوتا‘ رخصت ہونے کو ہے ۔ جس سے متعلق ہمارے رب نے فرمایا کہ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا ءکے پیروﺅں پر فرض کئے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی “۔اس اہم رکن کی فرضیت کیساتھ ہی اصل بات واضح کر دی گئی کہ تم کو محض بھوکا پیاسا رکھنا اور رتجگاہ مقصود نہیں۔ واضح مقصد یہ ہے کہ تم میں تقوی یعنی خدا خوفی پیدا ہو۔کھلے و چھپے اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقوی ہے۔ تقوی یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ جس دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اس دل کو دنیا کے ہر خوف سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔اللہ کا خوف کرنے والا دنیا کے ہر جابر و ظالم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔تقوی ہی قیامت کے دن نجات دلائےگا ۔مومنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ تقوی ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے، جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں، راستے روشن ہو جاتے ہیں اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتے ہیں۔ تقوی وہ کلید ہے جس سے برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقوی سے متعلق دامادِ رسول صلعم جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تقوی دراصل اللہ تعالی سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے۔ تقوی کی ایک تعریف صحابی رسول حضرت ابی بن کعب ؓ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر بیان فرمائی تھی۔ حضرت ابی بن کعب نے آپؓ سے پوچھاکیا آپ کبھی کانٹوں والے راستے پر نہیں چلے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کیوں نہیں۔ حضرت ابی بن کعب نے پوچھا کہ اس وقت آپ کا عمل کیا ہوتا ہے؟ حضرت عمر فاروق نے کہا کہ میں اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔ حضرت ابی بن کعب نے کہا کہ بس یہی تقوی ہے۔(تفسیر ابن کثیر)تقوی کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے، جیساکہ نبی اکرمﷺ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا” تقوی یہاں ہے“(مسلم)غرضیکہ تقوی اصل میں اللہ تعالی سے خوف ورجا کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی)ایمان و احتساب کے ساتھ، تو معاف کردیے جائیں گے۔ اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کئے ہوں گے اور جس شخص نے لیلة القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کئے ہوں گے“۔
اس کام کے لئے ہمیں کسی محتسب کی ضرورت نہیں، اپنا محاسبہ خود ہم سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا۔ معاملہ بھی ہمارا اس سے ہے جو ستر ماﺅں سے زیادہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ اور اس ماہ میں تو ہر وہ عمل جو خالص اس کی رضا کے لئے کیا جائے اس کا اجر تو وہ ستر گنا زیادہ دیتا ہے۔کیسے رحیم و کریم رب سے ہمارا واسطہ ہے ۔ آ توہی اُس کے در پر ، جس کی خوبصورت ترین صفت ہے کہ وہ مانگنے والے کو عطا کرتا‘ گڑگڑکے آتو سہی اس کے سامنے ، اس نے مان کے نہ دیا تو کہنا۔ کیا عجیب ہیں ہم بھی، ہم مجبور ہوتے ہوئے اس کی نہیں مانتے، وہ اختیار اعلی کا مالک ہو کر بھی ہماری مانتا ہے۔ گمراہیوں، غفلتوں اور ذلتوں سے اٹے ہم لوگ اس کے در پر جاتے ہیں۔ وہ دھتکارتانہیں ، طعن و تشنیع نہیں کرتا، پچھلی توبہ کے بعد ہمارے گناہوں کا ذکر نہیں کرتا، گناہوںکا حجم بتاتا ہے نہ ہماری بات رد۔ کسی چوہدری و دنیاوی جج کی طرح ڈانٹ پلاتا ہے نہ جلی کٹی سناتا ہے۔ اپنے دربار سے اٹھا دیتا ہے نہ یہ کہتا ہے تم بات نہیں کر سکتے جا کسی وکیل کو لیکر آ۔ معافی کے لئے نہ وہ قانون کی دفعات کے حوالے مانگتا ہے ۔ کوئی جرح کر کے اپنی عدالت سے بھگا نہیں دیتا۔ کمال کی صفات والا رب ہے وہ ۔ جناب رسالت مآب صلعم کے زریعے کتاب قانون کے زریعے اس نے زندگی گزارنے کی سب دفعات بتا دی تھیں۔ ہم نے اس کتاب کو طاقوں میں سجا دیا۔ کبھی ہاتھ لگایا بھی تو فہم کے حصول یا اس کے قوانین پر عمل درآمد کے لئے نہیں بلکہ محض ثواب کے لئے۔ ہمارے اس طرز عمل کے باوجود اپنی عدالت سے نکال باہر نہیں کرتا۔ دل میں اترتا ہے، نیتوں کو پڑھ لیتا ہے۔ندامت کو دیکھ لیتا ہے، بندگی کو بھانپ لیتا ہے۔ ہمارے آنسوﺅں ، ہمارے پچھتاوے پر ہمارا ٹھٹا نہیں لگاتا۔ اپنے فرشتوں کو کہتا ہے دیکھا میرے بندے کو ، میرے پاس ہی آتا ہے ، مجھ ہی سے طلب کرتا ہے۔ ہم جب خلوص سے اپنے سب دکھ ، اپنی سب پریشانیاں ، اپنی سب حاجتیں اس کے سامنے رکھتے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں کہ رب یہ سر تمہارے سوا کسی کے سامنے نہ جھکے، مالک یہ ہاتھ تم سے ہی سوالی ہو تو وہ رب اعلی خوش ہوتا ہے، احسان کا رویہ اختیار کرتا ہے۔گناہ معاف کرتا ہے۔ اس کو پیش کی گئی سب عرضیاں منظور ہوتی ہیں ۔ وہ آپ کے قرض بھی پھر اتارتا ہے اور دنیاوی خوف سے نجات بھی دیتا ہے۔ لوگو یہ عمل آزما کے تو دیکھو ، پھر دیکھنا مالک دو جہاں تم کو کیسا سکون اور طمانیت عطا فر مائے گا۔ دیکھو یہ نہ سوچنا مہینے کا بڑا حصہ تو گزر گیا ، اب ایک دو راتوں اور کچھ ساعتوں میں کیا حاصل ہو پائے گا۔نہیں ایسا ہر گز نہ سوچنا‘ جھک جاﺅ اس کے سامنے ، بچھا دو اپنی جبین اور مانگو اس سے۔اے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے بس مجھے معاف کر دے۔اللہ مجھے آتش دوزخ سے نجات دینا۔ اللہ میرا آسان حساب کرنا۔ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر اور ہمیں معاف کرنا۔ بےشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا“(القرآن)
اور جو بھی مانگنا ہے مانگ لو اپنے رب سے اپنے الفاظ ، اپنی زبان اور اپنے انداز میں۔برکتوں کے اس ماہ عظیم میں کئی واقعات رونما ہوئے۔ سولہ رمضان کو فتح مکہ معرض وجود میں آئی۔سترہ رمضان اسلام اور کفر کے پہلے معرکہ میں بدر کے مقام پر مختصر سے لشکر اسلام کو فتح حاصل ہوئی۔ تین رمضان کو نورِنظر رسول صلعم سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کی وفات ہوئی۔ اکیس رمضان کو سیدنا علیؓ کو شہید کیا گیا۔ یوم باب السلام بھی رمضان میں پیش آیا۔بیش بہا قربانیاں پیش کرنے کے بعد پاکستان کا قیام بھی اس ماہ مقدس کی بابرکت ستائسیویں رات ہی کو عمل میں آیا تھا۔ اسلامی نظریے کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک میں اللہ و رسول کے عاشق تو بے پناہ مگر اس میں اسلامی شریعت نافذ نہ ہو سکی۔ ایسا ہو جاتا تو آج ہم کوجن حالات کا سامنا ہے وہ درپیش نہ ہوتے۔ آج کہنے کو تو ہم سب متحد ہیں مگر عملًا ایسا نہیں ۔ اداروں کی باہم لڑائی ہے، باہمی احترام اور اپنی اپنی حدود میں رہ کے ذمہ داریاں ادا کرنے کی فضا مفقود ہے۔ جس کے پاس زیادہ طاقت ہے اصل حکم اسی کا چلتا ہے۔ ووٹ کو یقینا عزت ملنی چاہیے مگر کب کھلا تجھ پر یہ راز اقتدار کے اندر یا اقتدار کے بعد۔اب تک اڑھائی فیصد کے قریب ضمیرفروش ایک سے دوسرے آشیانے میں منتقل ہو چکے ہیں ، یہ وہ طبقہ جو مسائل کی اصل جڑ ہے۔ افسوس تو ان پر ہے جو تبدیلی کی آواز بلند کر کے آگے بڑھے تھے مگر پورے پاکستان کا گند انھوں نے اپنے ہاں جمع کر لیا ہے۔ہم سب کی بقا اپنے اپنے دائرے میں رہنے اور عوام کے بخشے اختیار کے احترام ہی میں مضمر ہے۔اللہ غریق رحمت کرے اُجلے کردار کے مالک افسر و سفارت کار مرحوم مختار مسعود کو جنھوں نے اپنی آخری تصنیف میں لکھا کہ”قدرت بعض معاملات میں بڑی بے لحاظ ہوتی ہے موقع ملے تو افراد ہی نہیں بلکہ قوموں اور ملکوں کے کپڑے بھی اتروا لیتی ہے، اگر حافظہ اور حوصلہ ساتھ دیں تو 16 دسمبر 1971کو یاد کرلیں”
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے ۔