عاصمہ جہانگیر دونوں جہانوں کے رب کے پاس چلی گئیں۔ بے رحم تبصرہ آرائیوں سے تو لگتاہے ہم نے مرنا ہے نہ ہی ہم کو موت آئے گی ۔مگر جلد یا بدیر ہم کو بھی اُدھر ہی جاناہے۔
ایک ایسے مالک کی طرف ، جو رحیم بھی ہے اور ستار العیوب بھی۔
جو حیسب بھی اور منصفِ اعلیٰ بھی۔
ایسا منصف جسے کسی ثبوت کی ضرورت نہ تفتیش کار کی۔ دلوں میں پلنے والے ارادوں تک کو جاننے والا منصف۔
بھینگا،(خدانخواستہ کسی کی طرف اشارہ نہیں۔)جانبدار نہ کسی نادیدہ قوت سے ڈرنے والا منصف۔
منصف اعلیٰ عاصمہ اور ہم سب سے رحم کا معاملہ کرے۔ نبی کریم صلعم کی سکھائی گئی دعا کیمطابق ہمارا آسان حساب لے۔
عاصمہ کو کچھ نہ کچھ میں بھی جانتا ہوں، ان کی زندگی میں انکے حق و مخالفت میں، میں نے بھی لکھا۔ انکو کبھی مجاہدہ نہیں کہا مگر جرات ، بے باکی اور دنیاِپاکستان کے ہر ظلِ الہی کو عاصمہ ہی نے للکارہ۔ وہ بے مِثل تھی ۔کل جن کو ہم مجاہد اور آج دہشت گرد کہتے ہیں ۔ عاصمہ کی اپنی سوچ (School of thought)تھی۔ میری معلومات کے مطابق وہ مجاہدین کی کبھی حامی نہیں رہی۔ (برہان وانی کے علاوہ، کشمیر و فسطین کی تحریک کی البتہ انھوں نے حمائت بھی کی اور ان کے ادارے نے قراردادیں بھی پاس کیں۔)
پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی انھوں نے بھی ہمیشہ مخالفت کی۔ مگر جب آئین پاکستان سے ماورا فوجی عدالتوں کے قیام کا وقت آیا، مسٹر و مُلا سب طاقتور حلقوں کے آگے بکری بن گئے تو وہ اکیلی شیر کی مانند میدان میں رہیں۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے باوجود لوگ اُٹھاکر گُم کر دئیے جاتے رہے اور مُثلہ بنائی گئی لاشیں پاکستان کے طول و عرض سے ملتی رہیں تو سیاستدانوں میں تنہا جناب سید منورحسن تھے جو صدائےاحتجاج بلند کرتے رہے اور ماہرینِ قانون و انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی واحد راہنما عاصمہ تھیں جو نہ صرف تڑپتی رہی بلکہ اسکے خلاف آواز بھی بلند کرتی رہیں۔
کل انکی موت کے فوری بعد اظہار افسوس و مغفرت کے چند جملے لکھنے سے قبل اپنی اہلیہ و بیٹے سے کہا کہ “تنگ نظر” مغفرت کی دُعا پر بھی سیخ پا ہو جائیں گے۔ خود کو بھی ایک خیال آیا کہ کچھ نہ لکھوں ، بعد میں تبصروں کے جواب کون دیتا رہے گا؟
مابعد ذہن میں خیال آیا کیا لکھنا وہ چائیے جس پر لوگوں سے ستائش کی توقع ہو؟ یا مذمت کے ڈرسے کچھ نہ لکھا جائے؟
اندر بیٹھے منصف و ضمیر نے کہا لکھنے کا کام بامقصد ہونا چائیے۔ کوئی ستائش کرے یا مذمت ہر دو باتوں کی پرواہ کئیے بغیر۔
چنانچہ چند جملے لکھ دئیے، ردِعمل کے طور پر “مجاہدین اسلام” حملہ آور ہو گے۔
کچھ لوگ مرحومہ عاصمہ کو احمدی بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں، مجھے بھی بد دعاؤں اور گالیوں سے نوازا گیا۔ برے انجام اور دوزخی جیسے “ٹائٹلز” دئیے گئے۔ کچھ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے قاضی صاحب مرحوم و مغفور اور نجم سیٹھی کے واقع کو بھی قلمبند کیا۔ مگر ہم پہلوتہی پر اُتر آئیں تو اللہ اور رسول صلعم کے فرامین کی کر دیتے ہیں۔قاضی صاحب کی مثال ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہے؟؟
ہم مثال دیتے ہیں مقننہ کی، اُس نے احمدیوں کو کافر قراردیا۔ اُسی پارلیمان نے توہین رسالت کیخلاف قانون سازی کی تھی۔ جس پارلیمان کی تعریف میں ہم رطب اللسان رہتے ہیں۔
۱۲ فروری ۲۰۱۸ پیر کے روز اُسی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اُس عاصمہ جہانگیر کے لئے متفقہ طور پر تعزیتی قراردادیں بھی پاس کیں اور مغفرت کی دعا بھی کی جسے لوگ احمدی ، غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دیتے نہیں تھکتے۔ دونوں ایوانوں میں انسانی حقوق کی علمبردار ممتاز قانون دان سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں خاتون رہنما کے انتقال کو قومی نقصان قراردیا گیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے مطالبہ کیا کہ ملک میں کسی کو غدار ، ملک دشمن قرار دینے کا سلسلہ اب تو بند کر دیں اب تو فتوؤں سے بعض آجائیں ۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر کے بعد شاید اب مجھے غدار اور ریاست مخالف قرار دیا جانے لگے ۔انھوں نے مرحومہ کو جمہوری قوتوں کا ’’جرنیل’’ کا خطاب دیے جانے کا مطالبہ کیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پارلییمان کے دونوں ایوانوں میں دینی سیاسی جماعتوں کی قیادت کیساتھ ساتھ مستند علماء کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ آپ علماء کو پسند نا پسند کر سکتے ہیں ۔ اُن کی رائے سے اختلاف بھی مگر قرآن و حدیث کے علوم وہ ہم جیسے “مفتیان” سے ہزار گنا زیادہ جانتے ہیں۔
میری معلومات کی حد تک تعزیتی قرارداد کے موقع پر پارلیمان کے کسی نمائندے نے اختلاف کیا اور نہ ہی وہ اُٹھ کر باہر گیا۔
پارلیمان میں اس اقدام کے بعد بھی کیا رکیک تبصرے روکنا محال ہے؟
بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایسا تھا جہاں اُسکی منفعت ہوتی تھی وہ اللہ کے فرامین کا حوالہ دیتا تھا اور جہاں دوسری صورت حال درپیش ہوتی وہ احکام الہی کو بھلا بیٹھتا تھا۔
سورہ بقرہ میں اٗسی گروہ سے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا کہ
“تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔”
ہم تو دھتکارے گئے بنی اسرائیل کے لوگ نہیں۔
پارلیمان کی حیثیت نعوذ بااللہ کسی صحیفے کی سی نہیں مگر یہ طٗرفہ تماشہ تو بند ہونا چائیے کہ فائدے کے لئے ہم یہ دلیل لائیں کہ توہین رسالت کا بل عاصمہ جیسے افراد کے لئے تھا۔ اُس معاملے میں یہ پارلیمان اتنی ہی معتبر تھی تو تعزیتی قرار داد و دعا میں علماء کا شامل ہونا کیا کوئی پیغام نہیں چھوڑ رہا؟؟؟