کراچی (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں 23اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے وزارت دفاع کو خط لکھ کر فوج اور ایف سی کے اہلکاروں کو طلب کریں ،سندھ حکومت شکست سے خوف زدہ ہوکر مسلسل انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے پولیس کی نفری اور سیلاب کا بہانہ بنارہی ہے ،صوبائی حکومت بتائے کہ کراچی میں ہونے والے کرکٹ میچز کی سیکورٹی کے لیے پولیس کی بھاری نفری کہاں سے لائی گئی ؟،اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا احتجاج رکوانے کے لیے سندھ سے ہزاروں پولیس اہلکار کہاں سے فراہم کیے جائیں گے ؟،وزیر اعلیٰ سندھ بتائیں کہ انہوں نے کتنے پولیس اہلکاروں کو اپنے پروٹوکول اسکواڈ سے نکال کر سیلاب زدگان کی مددکے لیے بھیجا ہے؟،سندھ حکومت ان پولیس اہلکاروں کی فہرست شہریوں کے سامنے پیش کرے جنہیں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بھیجا گیا ہے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان سندھ حکومت کے اس طرزعمل کا نوٹس لیتے ہوئے شہر کی تمام اسٹیک ہولڈرجماعتوں کا اجلا س بلاکر واضح طور پر اعلان کرے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات 23اکتوبر کو ہی ہوںگے ۔
ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے جمعہ کو ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پرنائب امیر کراچی راجہ عارف سلطان،سیکر یٹری کراچی منعم ظفرخان،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری،ڈپٹی سکریٹری اطلاعات صہیب احمد بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزیدکہاکہ 2015میں بلدیاتی انتخابات بھی عدالت کے کہنے پر ہوئے تھے اس وقت بھی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرواناچاہتی تھی اس سے قبل2009سے 2015تک شہر کے انتظامات ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے چلائے جاتے رہے اس وقت ایم کیو ایم براہ راست پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار تھی پھر پیپلزپارٹی نے ایک ایک کر کے سارے بلدیاتی اختیارات چھین لیے اور 30اگست 2020کو بلدیہ کی مدت ختم ہوگئی ۔انہوں نے مزید کہاکہ سندھ حکومت بتائے کہ 2020سے جولائی 2022تک کونسا سیلاب اور بارش تھی جس کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے اور صوبائی حکومت نے کیوں سیاسی ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا ؟حقیقت یہ ہے کہ سیلا ب صرف بہانہ ہے ،سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کرنا ہی نہیں چاہتی ۔
انہوں نے کہاکہ جناح اسپتال کے داخلی دروازے پر طویل عرصے سے سیوریج کا پانی جمع ہے ،پیپلزپارٹی کے سیاسی اور غیر جمہوری ایڈمنسٹریٹر کہاں ہیں؟وہ جو بار بار یہ کہتے رہے کہ میونسپل ٹیکس کی مخالفت کر کے شہر کو تین ارب روپے کی آمدنی سے محروم کردیا ،ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب وڈیروں اور جاگیرداروں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ موٹروہیکل ٹیکس کے 77ارب روپے کہاں خرچ کیے گئے ؟،پی ایف سی ایوارڈ کہاں گیا؟،اصل بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنا ہی نہیں چاہتی اسی وجہ سے سیلاب زدگان کی مدد کا بہانہ بناکربلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام امن و امان اور تحفظ چاہتے ہیں ، پیپلزپارٹی 15سال سے سندھ پر حکمران ہے اور اس عرصے میںکراچی کے لیے باعزت ٹرانسپورٹ سسٹم تک نہیں بنایا گیا،مردم شماری کروائی گئی تو اس میں بھی آدھی آبادی ظاہر کی گئی اورا سی مردم شماری کو نوٹیفائی کردیا ،کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک کے لیے اضافہ کردیا،کراچی میں اب تک 41سے زائد شہری ڈینگی سے ہلاک ہوچکے ہیں اس وقت بھی بلدیہ کی طرف سے کوئی اسپرے نہیں کرایا گیا اس صورت حال میں فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں تاکہ وارڈ اور کونسلرز کی سطح پر کام کیا جاسکے ۔
امیرجماعت اسلامی نے کہاکہ سیلاب زدگان کی خدمت کا اعزاز صرف اور صرف جماعت اسلامی کو ہی حاصل ہے ہم نے سیلاب زدگان کی بھرپور خدمت کی اور ان کو جینے کے لیے ضروریات زندگی فراہم کیں پیپلزپارٹی کے بااثر وڈیرے بند باندھ کر اپنی زمینیں محفوظ کرتے رہے اور دوسروں کو تباہ کرتے رہے پیپلزپارٹی کے وزیر اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے لاکھوں مچھر دانیاں تقسیم کیں اگر اس کا فارنزک آڈٹ ہوجائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا،اگر این جی اوز نہیں ہوتیں تو سب پتا چل جاتا کہ سندھ حکومت کہا ں کھڑی ہوئی ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ اسٹریٹ کرائمز بڑھ رہے ہیں ،شہر میں تین نوجوان شہید کردیئے گئے ہیں ، ہم حکومت اور متعلقہ اداروں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر رینجرز کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے اختیارا ت نہیں دیے جارہے تو انہیں کیوں تعینات کیا گیا ہے؟،پولیس میں مقامی لوگوں کو کیوں بھرتی نہیں کیا جاتا ؟۔#