آرمی چیف کی فو ج کے سیاست سے دور رہنے کی بات خوش آئند ہے،خواجہ آصف


اسلام آباد (صباح نیوز)وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف نے فو ج کے سیاست سے دور رہنے کی بات کی ہے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے، اگر یہ آرمی چیف آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑا خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمیں ضرور اس چیز سے ناطہ توڑنا چاہیے کہ آرمی چیف کے ساتھ سیاسی یا عوامی اقتدار یا سویلین اقتدار منسلک ہے ، وہ نہیں ہے، اور یہ آئین کہتا ہے اور اگرآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہونا چاہیئے تو میں پھر کہوں گا کہ یہ خوآئند بات ہے، میں اس بات پر اعتبا ر کرنے کے لئے تیار ہوں، میں کیوں اس پر شک کروں اور اس حوالہ سے روڈمیپ بننا چاہیے۔ہمیں آئین پاکستان کی کتاب پر واپس جانا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ عمران خان کی جنگ اپنے ذاتی اقتدار کی جنگ ہے جبکہ ہماری جنگ ملک کی بقاء کی جنگ ہے، اگر کوئی چیز ناگزیر ہے تو وہ ہمارا وطن ہے اوروہ اس وطن کی بقاء ہے۔ عمران خان اپنے ووٹر اور اپنے عوام کے اوپر اعتماد نہیں کررہا ، وہ بار، بار آرمی چیف کی تعیناتی اس لئے مانگتا ہے، اس لئے اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے اقتدار کی ضمانت ہو گی۔ ان خیالات کااظہار خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سائفر، توشہ خانہ کے تحائف اور برطانیہ سے ملنے والے 19ملین پائونڈز کے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان زیادہ شور اس لئے بھی مچارہا ہے کہ اس کے کرپشن کے کیسز ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری بھی ہوسکی ہے، 190ملین ریاست کا پیسہ ہے، ہائی کمیشن نے پیسہ سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں بھجوایا ، ہائی کمیشن نے وہ پیسہ سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں بھجوایا یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ سپریم کورٹ میں جارہا ہے، وہ ایسے اکائونٹ میں چلا گیا جس میں 460ارب روپے واجب الادا ہیں، اس کی ایڈجسٹمنٹ میں وہ پیسہ چلا گیا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حوالہ سے ایک بات تو مسلمہ ہو چکی ہے کہ ان کے کسی کہنے کے اوپر اعتبار نہ کریں، ان کی لغت یا ڈکشنری میں کوئی حتمی بات نہیں، یہ کسی وقت بھی کسی چیز سے پھر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھی یہ پتا نہیں لگتا کہ عمران خان جو آج کہہ رہا ہے کل اس پر کھڑا بھی ہو گا کہ نہیں۔ ایک چیز جو مستقل ہے وہ یہ کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ انہیں ہر قیمت پر اقتدار دوبارہ واپس مل جائے، اس کے لئے آرمی چیف کے پائوں پکڑنے پڑیں، ترلے کرنے پڑیں، صدر کو درمیان میں ڈال کر ملاقات کرنی پڑے، اس میں ایکسٹینشن کی پیشکش کی جائے اورایکسٹینشن کس نیت سے آفر کی جائے، جب ایکسٹینشن دی جائے گی تواس کے بعد صورتحال کیا ہوگی اور کون پھر ممکنہ طور پر جانشین ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیلاب اور ہماری معاشی صورتحال ایسے دو چیلنجز ہیں جن سے ہمارے وجود کو خطرہ ہے۔ عمران خان ملکی معیشت کو کھنڈرات کی صورت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ہم ان کھنڈرات کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ اوپر سے سیلاب آگیا، اللہ تعالیٰ اس سے بھی نکالے گا۔ عمران خان نے کبھی سیلاب سے متعلق بات کی ہے، نہ معیشت سے متعلق بات کی ہے۔ اگر پی ٹی آئی دوبارہ قومی اسمبلی میں واپس آئے گی تو پھر 2014کی تاریخ دہرائی جائے گی جب میں نے پی ٹی آئی کے لئے کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیاء ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی واپس اسمبلی میں آتی ہے تو میری بات ثابت ہوجائے گی کہ یہ بغیر شرم کے اور بغیر حیاء کے ہیں، یہ رینگ کراور گھٹنوں کے بل واپس آئیں گے، یہ اس پربھی تیار ہوں گے، یہ عدالت میں ہر چیز لکھیں گے اور پتا نہیں کس، یہ انگوٹھے لگائیں گے اورپتا نہیں کدھر ، کدھر انگوٹھے لگانے پر تیار ہوں گے۔عمران خان روزانہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے،  جب یہ وزیر اعظم تھااِس نے اُس وقت آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی ہوئی ہے۔ جس رات تحریک عدم اعتماد ہوئی، اس رات کی واردات پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں سب سے سنگین واردات ہے۔ ساری قوم کے نمائندوں کو مل کر ملکی نظام کے حوالے سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ کس طرح یہ نظام آئین اور قانون کے مطابق مئوثر ہو سکتا ہے اور عمران خان جیسے ایڈوینچرز کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاستدان پارلیمنٹ کے فورم کو مئوثر انداز میں استعمال نہیں کریں گے ، سیاستدان اسی طرح خجل خوارہوتے رہیں گے جس طرح پچھلے 75سال سے ہورہے ہیں۔

خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے، اگر اس کو اعتبار ہے تو اپنی مقبولیت پر اعتبار کرے، وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف کیوں تعینات کرنا چاہتا ہے، کیوں تعینات کرنا چاہتا ہے؟یہ ادارے کی صوابدید ہے کہ وہ سنیارٹی کے حساب سے نام تجویز کر کے بھیجے اوران ناموں میں سے وزیر اعظم ایک کا انتخاب کر لیں گے۔ ادارہ بطور وزیر دفاع میرے پاس نام بھیجے گا اور پھر میں وہ ڈوزیئر لے وزیر اعظم کے پاس چلا جائوں گا، پھر وزیر اعظم کا کام ہے کہ ان ڈوزیئرز میں کس کا انتخاب کرلے۔ میں نے بطور وزیر دفاع2013اور2016میں یہ فرض ادا کیا ہے دونوں مرتبہ پانچ، پانچ نام تھے، ناموں کی تعداد کی کوئی قید نہیں تاہم یہ روایات ہیں جن کی پاسداری کی جاتی ہے۔عمران خان اگر لانگ مارچ لے کرآتے ہیں تو تصادم کا امکان ہے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کو روک لیں گے۔ آخری جنگ پاکستان کی عوام اور پاکستان آئین جیتے گا ، کوئی فرد واحد یہ جنگ نہیں جیتے گا، اگر کسی کی شکست ہو گی تو وہ عمران خان کی ہو گی۔