اقبال کا پیغام تحریر : اکرم سہیل


ڈاکٹر مقصود جعفری نے فکر اقبال پر اپنی اس کتاب The message of Iqbal میں علامہ اقبال کے وہ تمام افکار و خیالات جو نظم و نثر میں بیان کرنے کیلئے ہزاروں صفحات درکار ہیں انہیں اس مختصر سی کتاب میں موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر اپنی اس تحریر کو امر کر دیا کہ بقول اقبال ؎ سینہ روشن ہو تو یے سوزِ سخن عین حیات۔ نہ ہو روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی۔ علامہ اقبال کے افکار کی تلخیص و تعبیر پر مشتمل یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی زندہ معاشرے کی شعوری ترقی اور عصری عظمت کا راز حریتِ فکر اور آزائ اظہار میں پنہاں ہوتا ہے جو قوموں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں روشن منزلوں سے ہمکنار کرتے ہیں۔ بقول اقبال۔؎ ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق۔ یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق۔ اس کتاب کے موضوعات میں اقبال کے تصورِ خودی اور اس تصور کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر اطلاق،جمہوریت کا حقیقی مفہوم،تصوف کی حقیقت اور ایک سلامتی کی ریاست کے بنیادی خدوخال جو اقبال نے اپنی نظموں اور نثر میں بیان کئے انہیں نہائت خردافروزی کے ذریعہ قارئین تک پہنچانے میں بے مثل کام کیا ہے جس کے ذریعہ اقبال کا حقیقی پیغام لوگوں تک پہنچے گا۔ علامہ اقبال کا فلسفہ نہ صرف عقل و خرد کی راہیں کھولتا ہے بلکہ اسلام کےتصورِ اجتہاد کو بھی زماں و مکاں کی قیود سے آزاد کر کے اسلام کو ایک ایسے زندہ مذھب کے طور پر پیش کرتا ہے جو ہر زمانے کے مسائل کا حل عصری شعور کی روشنی میں دے سکے۔ اسی لئے اقبال کہتے ہیں کہ ؎ جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود۔ کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔ اقبال کے تصورِ خودی کو ڈاکٹر مقصود جعفری نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ خودی سے مراد نہ تو انفرادی تکبر ہے اور نہ ہی اس سے مراد اجتماعی سامراجیت ہے کہ اپنے قوم یا نسلی جنون کی بنیاد پر دنیا میں فاشزم کی ترویج کی جائے بلکہ اپنی آزادیاں، اپنی ترقی اور کامیابیاں دوسروں کے حقوق پامال کئے بغیر حاصل کی جائیں۔اور ان کامیابیوں کی بنیادیں انفرادی اوراجتماعی دونوں سطحوں پر تکریم انسانیت، مساوات انسانی، سماجی معاشی و معاشرتی عدل و انصاف ہوکہ انسانی مساوات اور برابری اس قوم کی تہذیب کا تقاضا ہے جس کا دین مکمل کر دیا گیا ہو۔اسی لئے اقبال کہتے ہیں کہ؎ عجب نہیں کہ خدا تک تیری رسائی ہو۔ تیری نگاہ سے پوشیدہ ہے آدمی کا مقام۔ توحید کے تصور کو بھی ڈاکٹر صاحب نے خودی کے ساتھ جوڑکر خوبصورت انداز میں لکھا کہ یہ تصور انسان کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد ہونا سکھاتا ہے۔جسے اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔؎ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ اقبال کے تصورِ خودی کا عملی تقاضا یہ ہے کہ انسان انفرادی یا اجتماعی کسی بھی سطح پر کسی کا دستِ نگر نہ ہوں اور نہ ان کا ملک کسی آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک کا سوالی ہو اور نہ ایسا نظام ہو کہ ملک اور عوام کے نام پر جو قرضے لئے جائیں وہ سبسڈی اور دیگر دھوکہ دہی کی خوبصورت اصطلاحات کے نام پر مقتدر اشرافیہ کی جیبیں بھریں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری نے اپنی اس کتاب میں اقبال کے افکار کی روشنی میں اسلام کے اجتماعی سماجی اور معاشی عدل و مساوات کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ ریاست مدینہ کا پہلا قانون قانونِ مواخات تھا جس میں لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کیلئے دولت اور زمینوں میں حصہ دار بنایا گیا تھا۔تقسیم دولت کا یہ قانون اس لئے لایا گیا کی نبئ پاکﷺ کے ارشاد کے مطابق غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔اقبال نے اس نظام کے بارے میں کہا کہ ؎ کس نباشد در جہاں محتاج کس ۔ نقطہ شرعِ مبیں …