جشن آزادی پاکستان اورکشمیر۔۔۔شکیل احمدترابی


دھان پان سا راہنماءجس کا حوصلہ کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند و مضبوط ہے۔ بہت سی بیماریوں نے جسمانی طور پر جس کو توڑ کے رکھ دیا ہے مگراپنی اول العزمی کے سبب وہ شخص اپنے موقف پر پوری آب و تاب کیساتھ ڈٹا ہواہے۔یہ ہے اٹھاسی برس کا سید علی شاہ گیلانی جو نحیف و کمزور تو ہے مگر جس کی آواز انتہائی توانا ہے۔ جو آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کی سنگینیوں، توپوں اور گولیوں کی گھن گرج کے ماحول میں پوری توانائی کیساتھ کھڑے ہو کر پاکستان کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ ”یہ مملکت اسلام کے نام پر حاصل کی گئی تھی اور اسلام ہی اس کا مقدر ہونا چاہیے۔ علی گیلانی کہتے ہیں کہ یہ مملکت قومیت ، لسانیت یا کسی اور ازم کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کے لئے حاصل کی گئی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ اسلام کی نسبت وتعلق سے ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“۔ گیلانی کی صدا ءپر لبیک کہتے ہوئے تقریب میں موجود ہزاروں لوگ باالخصوص نوجوانوں کے نعرے رکنے کا نام نہیں لیتے” ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہماراہے”۔ایسے ہی نعرے اورپاکستان کے پرچم بلند کرنا کشمیریوں کا معمول ہے۔ اس معمول کوقائم رکھنے کے لئے کشمیری روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
سترہواںآزادی کاجشن پرامن فضاﺅں میں پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدان اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جوش و خروش سے منایا ہے۔ ایشیاءکا سب سے بڑا اور دنیا کا آٹھواں بڑا جھنڈا فضاﺅں میں بلند کر کے ہم نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا تھا اور انشااللہ قائم رہے گا۔
صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ “چیلنجز پر قابو پا کر ہی ہم اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں اور باہمی انتشار و اختلافات ختم کر کے ہی ہم ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں”۔
پاکستان کی محافظت کا فریضہ سرانجام دینے والی سپاہ کے سربراہ جناب قمرجاویدباجوہ نے واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ “اگرچہ ہم اندرونی و بیرونی چیلنجز کا شکار ہیں مگر ہمارادشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ دشمن کے عزائم خاک میں ملا کرہم کم عرصے میں اسے علامہ اقبال ؒو قائداعظم ؒکا پاکستان بناکر دم لیں گے”۔
قوم نے جشن آزادی پورے جوش و ولولے سے منایا مگر ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کے ہم باہم دست و گریباں ہیں۔
کاش سول و عسکری راہنما ایک دوسرے پر تہمتیں لگانے کی بجائے قوم کو پاکستان کے استحکام وترقی کے لئے یکسو کرتے، وہ یکسوئی جو قائداعظم ؒکی ولولہ انگیز قیادت نے مسلمان مِلت کو بخشی تھی اور بیش بہا قربانیاں دیکر ہمارے آبا ﺅ اجداد نے مملکت پاکستان حاصل کی تھی۔ کاش آتش بازی اور ناچ گانے کی بجائے ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے کہ ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔
آئین و قانون کی پاسداری کرنے والی قوم ، جس میں کوئی چھوٹا بڑا اور بااثر و بے اثر نہیں۔ قانون کا کوڑا برسنا ہے تو صرف بے اثر لوگوں پر نہیں بلکہ سیاستدانوں کیساتھ ساتھ ججوں ، جرنیلوں ، صحافیوں اور دیگر قانون توڑنے اور لوٹ مار کرنے والوں پر بھی برسے گا۔ہم فوجی نہ سِول، بلوچی نہ پٹھان، پنجابی نہ سندھی۔سب ایک آواز بن کر پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو آزاد کرائیں گے اور جس مقصد کے لئے آزادی حاصل کی تھی یعنی کلمتہ اﷲکا نفاذ اس عہد کو پورا کرینگے۔

نوٹ:
وزیراعظم آزادکشمیرراجہ فاروق حیدر سے متعلق میرے کالم کے جواب میں روزنامہ جنگ نے اعلیٰ صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ایک صحافی ابومحسن کے نکتہ نظرپرمبنی تحریر شائع کی۔ اس تحریر میں راقم اور نیوزایجنسی جس کا میں مدیر ہوں سے متعلق غلط فہمی نہ پھیلائی جاتی تو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ابو محسن کی تحریر سے اپنی مرضی کامفہوم نکال کر بعض شرپسند عناصرنے بڑے پیمانے پر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ جنگ کی انتظامیہ کی شہ پر راقم الحروف کسی بڑی سازش کا حصہ ہے۔ریکارڈ کی درستی کے لئے چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔
ابو محسن رقم طراز ہیں کہ” شکیل ترابی نے اپنے کالم میں راجہ فاروق حیدر کی پریس کانفرنس میں استعمال ہونے والے لفظ کے غلط ترجمے کا ذمہ دار اخبارات کو قرار دیا ہے۔ پتا نہیں کونسا مفاد تھا یا مجبوری کہ انہوں نے ایسا کیا؟ کیونکہ ریکارڈ نہ صرف ان کے دعوے کی تردید کرتا بلکہ اس بات کو سچ کے بالکل برعکس قرار دیتا ہے۔ اگرچہ راجہ فاروق کے لفظ جوڑنے کا ترجمہ الحاق غلط بھی نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ شکیل ترابی جس نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر ہیں، اسی نے یہ ترجمہ کیا اور اسی کی خبر میں الحاق کا لفظ استعمال ہوا جس کو اخبارات نے بھی اسی طرح استعمال کیا“اور ”ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کیوں کوشش کی۔ اس کی وجہ صرف خوف ہو سکتا ہے“۔
روزنامہ جنگ کی وضاحت میں یہ بات موجود ہے کہ ”جنگ اور دی نیوز کی خبریں بھی انہی نیوز ایجنسیوں سے لی گئیں جبکہ کئی اخبارات نے یہ خبر اپنے نمائندوں کے حوالے سے شائع کیں“۔
جنگ کی وضاحت میں اس بات کی شہادت موجود ہے کہ یہ خبر نیوزایجنسی نہیں نیوز ایجنسیوں کی فراہم کردہ تھی جو جنگ میں شائع ہوئی۔
ابو محسن کا یہ تاثر دینا کے تمام اخبارات نے میری ادارت میں چلنے والی نیوزایجنسی کی خبر استعمال کی حقائق کیخلاف ہے۔ جنگ کی خبر میں ایک قلیل حصہ ہماری نیوزایجنسی کا شامل ہے مگر بڑا حصہ ایک اور نیوز ایجنسی کا ہے۔
ابومحسن یقینامجھے جانتے نہیں اس لئے انھوں نے فرمایا کہ میں کسی مفاد، مجبوری یا خوف کا شکار ہوا۔میں ایک بہت عاجز بندہ ہوں میرے مفادات میرا پالنہار اﷲرب العالمین پورے کرتا ہے۔ ہاں مجبوری میری فقط یہ ہے کہ اپنے دین ووطن کے مفادات کیخلاف ایک لفظ نہیں لکھتا۔ دھمکیاں تو درجنوں صحافیوں کو ملتی ہیں مگر جسمانی تشدد تو چند پر ہوا، ان چند میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے مشرف دور میں جس کو نہ صرف اغواء کیا گیا بلکہ دوبارشدید تشددکانشانہ بنایا گیا اور یہ منفرد اعزاز تو شاید کسی اور صحافی کو حاصل نہ ہو کہ اسی فوجی آمر کے دور میں میرے پندرہ سالہ بیٹے حسن شرجیل کو سکول کے مین گیٹ پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر ساڑھے سات سال سے وہ لاپتہ ہے۔ پہلے ریاستی اداروں نے کہا کہ وہ ہماری تحویل میں ہے بعد میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں کہا گیا کہ وہ طالبان کے پاس ہے۔ ان حالات کا سامنا کرنےوالے کو آپ نے طعنہ دیا کہ وہ خوف کا شکار ہے۔ واہ رے دنیاوالو تمہاری طعنہ زنی کے کیا کہنے۔