سوشل میڈیا پر جتنے بھی پلیٹ فارم متعارف ہوئے ٹویٹر ان میں سے پرانی وضع کے صحافیوں کے لئے بہت کام کی چیز تھا۔ ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے شرمندگی ہورہی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹویٹر جواب ایکس کہلاتا ہے کے بارے میں ’’تھا‘‘ کا لفظ لکھتے ہی یاد آیا کہ گزشتہ پانچ دنوں سے اس نے مجھے پریشان کررکھا ہے۔
آج سے کچھ برس قبل تک میں دن کے کئی گھنٹے اس پلیٹ فارم پر اپنے ’’گرانقدر‘‘ خیالات کے اظہار سے زیادہ اپنے سے مخالف رائے رکھنے والوں کے لتے لینے میں گزاردیتا تھا۔ بہت عرصے بعد سمجھ آئی کہ یہ وقت کا زیاں ہے۔ ٹویٹر کی بدولت کسی بھی موضوع پر بحث درحقیقت فرقہ وارانہ مناظروں کی مانند ہے جس میں کسی ایک فریق کی سوچ کو آپ دلائل کے ذریعے بدلنے کے بجائے مزید جارحانہ بنادیتے ہیں۔ اس سے دوری اختیار کرتے ہوئے بھی مگر اس کالم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے اخبار میں چھپے کالم کو اس پلیٹ فارم پر ہر صبح پوسٹ کرنا بھی درکار تھا۔ اس کے علاوہ دریافت یہ بھی ہوا کہ کئی افراد نے میرے نام کے سپیلنگ بدل کر ’’نصرت جاوید‘‘ کے نام سے اکائونٹ بنارکھے ہیں۔ ان کے ذریعے جو اول فول بکی جاتی ہے وہ میری جہالت کا اشتہار ہونے کے علاوہ مجھے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے خواہ مخواہ کی مشکلات میں بھی الجھاسکتی تھی۔
دریں اثناء ٹویٹر کو دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک -ایلان مسک- نے خریدلیا۔ ہر منافع خور سیٹھ کی طرح اس نے یہ پلیٹ فارم خریدتے ہی اس کے بے تحاشہ دیرینہ ملازمین کو فارغ کردیا۔ صارفین کو بھی اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لئے ماہانہ یا سالانہ فیس ادا کریں۔ اس کے علاوہ لوگوں کو یقین دلانے کے لئے کہ آپ وہی ’’نصرت جاوید‘‘ ہیں جو یہ کالم لکھتا ہے سالانہ فیس ادا کرکے اپنے اکائونٹ کے ساتھ نیلے رنگ کی (ٹِک)ثابت کرنے والی علامات حاصل کریں۔ تصدیق کے اس عمل کو بلیوٹِک کا نام دیا گیا۔ مجھے ٹویٹر کے مالک کایہ حکم ٹھوس وجوہات کی بناپر تسلیم کرنا پڑا۔ اپنا اے ٹی ایم لے کر ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو کمپیوٹر کے اسرارورموز سمجھتا ہے۔ اس نے میرے لیپ ٹاپ پر انگلیاں گھماتے ہوئے اکائونٹ کو بلیو ٹک دلوادی۔
ایک سال گزر گیا تو مجھے یاد دلایا گیا کہ بلیوٹک حاصل کرنے کے لئے میں نے جو اے ٹی ایم نمبر دیا ہے اس کے ذریعے سالانہ فیس ٹویٹر جو اب ایکس کہلاتا ہے ازخود وصول کرسکتا ہے۔ اسے فقط میری اجازت درکار ہوگی۔ میں نے فوراََ ہاں کردی۔ میرے ہاں کہنے کے چند ہی گھنٹوں بعد میرے ٹیلی فون پر ادا کردہ رقم کی رسید وصول ہوگئی۔ اس عمل کے عین تین دن بعد مگر حکومت پاکستان نے اس پلیٹ فارم کے استعمال پر پابندی لگادی۔ میں اس کالم کو کئی مہینوں تک X پر پوسٹ نہ کرپایا۔ اس کی عدم دستیابی سے روس-یوکرین جنگ اور اسرائیل کے غزہ پر تفصیلات سے بھی عموماََ غافل رہا۔ ’’تازہ ترین‘‘ سے محرومی نے جی اداس کردیا۔ فیس مگر ادا کرچکا تھا۔ اسے ضائع ہوجانے کا دْکھ بھلانے میں مصروف ہوگیا۔ ٹویٹر کی علت سے شفایاب ہونے ہی والا تھا کہ کمپیوٹرکے اسرار ورموز سمجھنے والے ایک اور مہربان دوست نے میری سادگی کی لعنت ملامت کرتے ہوئے مجھے ’’وی پی این‘‘ نامی شے سے متعارف کروایا۔ اس کا استعمال بہت آسان تھا۔ میں نے یہ کالم زیادہ سے زیا دہ لوگوں تک پہنچانے کی خاطر اسے استعمال کرنا شروع کردیا۔ کبھی کبھار ’’تازہ ترین‘‘ بھی دیکھنے کو مل جاتی۔ اس کے علاوہ ٹی وی پر کہی اپنی باتوں کے کلپ بھی لوگوں تک پہنچانا شروع ہوگیا۔
گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے مگر میری سالانہ فیس کے دن تمام ہوگئے۔ میں حیران ہوا یہ سوچتا رہا کہ گزشتہ برس کی طرح اب کی بار مجھے سالانہ فیس کی ادائیگی کی یاد دہانی کیوں نہیں کروائی گئی۔ اس سوچ میں گرفتار تھا تو ای میل کے ذریعے پیغام آنا شروع ہوگیا کہ اے ٹی ایم کا جو نمبر میں نے X کو دے رکھا ہے اس کے ذریعے سالانہ ادائیگی جو اتنے پاکستانی روپوں کے برابر ہے فراہم کرنے سے انکار ہو رہا ہے۔
چند ہی ہفتے قبل میری بیوی کا بینک اکائونٹ تقریباََ ہیک ہوگیا تھا۔ بہت مشکل سے بچایا گیا۔ میں نے یہ فرض کرلیا کہ اب کوئی چکر باز میری بچت لوٹنے کے چکر میں ہے۔ ایسے پیغامات نظر انداز کرتا رہا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ گزشتہ برس X نے مجھ سے بلیو ٹک جاری رکھنے کے لئے باقاعدہ اجازت مانگی تھی۔
دو دن قبل میرے اکائونٹ سے مگر بلیو ٹک غائب ہوگئی۔ میں اس کے اجراء کے لئے مگر اپنے پاکستانی ڈیبٹ کارڈ سے X کو رقم ادا نہیں کرسکتا کیونکہ قانونی اعتبار سے ہمارے ہاں اس پلیٹ فارم کا استعمال ’’ممنوع‘‘ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے آئین کے مطابق وطن عزیز کے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ٹھہرائے شہباز شریف صاحب اس پلیٹ فارم کو دنیا تک اپنی سوچ پھیلانے کے لئے بدستور استعمال کررہے ہیں۔ عید کے روز کسی بھی مسلمان ملک کے سربراہ کو ٹیلی فون کے ذریعے عید مبارک کہنے کے بعد وہ ہمیں اپنے ٹویٹر پر بنائے اکائونٹ کے ذریعے اس کے بارے میں مطلع کرتے رہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر میرے وزیر اعظم پاکستان میں ’’بین‘‘ ہوئے اس پلیٹ فارم کو پیغام رسانی کے لئے استعمال کرتے ہیں تو میں یہ کالم اور اپنے دیگر ’’گرانقدر‘‘ خیالاتX ہی کے ذریعے لوگوں کے روبرو کیوں نہیں لاسکتا۔ یہ سوال اٹھانے کے بعد تجسس کا مارا دل و دماغ یہ بھی جاننا چاہے گا کہ جب وزیر اعظم کی سالانہ فیس ختم ہوجائے گی تو وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے میسر سہولت برقرار رکھنے کے لئے سالانہ فیس کیسے ادا کریں گے؟ جو ’’جگاڑ‘‘ ان کا سٹاف دریافت کرے گا X کے مجھ جیسے صارف بھی اس سے مستفید ہونا چاہیں گے۔
ایکس کہلاتے ٹویٹر نے میرے لئے جو پریشانی کھڑی کررکھی ہے اس کی وجہ سے عید کی تعطیلات کے دوران سوشل میڈیا کے کئی پھیرے لگانے پڑے۔ ان پھیروں کی وجہ سے احساس یہ بھی ہوا کہ عمران خان کی بنائی تحریک انصاف بدستور اس میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ عید کی تعطیلات کے دوران سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ بحث امریکہ میں مقیم ان 5 پاکستانیوں کے بارے میں ہوئی جو مبینہ طورپر چند دن قبل ہمارے ریاست کے ایک طاقتور ادارے کے سربراہ سے ملنے ’’خاموشی‘‘ سے پاکستان آئے۔ امریکہ میں مقیم عاشقانِ عمران کی اکثریت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ مذکورہ افراد کو ’’جھانسہ‘‘ دے کر دودن کے لئے پاکستان بلایا گیا۔ ان سے گفتگو کے دوران درخواست ہوئی کہ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران اگر چند دنوں کے لئے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھ لیں تو قائد تحریک انصاف کی مشکلات میں آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ پاکستان آنے والے نہایت شدت سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا وعدہ نہیں کیا۔ ان کی نیت پر سوال نہ اٹھائے جا ئیں۔ عاشقان مگر انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اس امر کو ڈٹے بیٹھے ہیں کہ امریکی ایوان نمائندگان کے ایک رکن -جوولسن- نے پاکستان کی عسکری قیادت کے امریکہ داخلہ پر پابندی لگانے کے لئے جو بل متعارف کروایا ہے اس کی حمایت کے لئے مزید اراکین امریکی پارلیمان کو تیار کرنے کا مشن جاری رہے گا۔ اپنی عمر کے 25 سے زیادہ برس پاک-امریکہ تعلقات کے بارے میں رپورٹنگ کی نذر کرنے کے بعد میں سمجھ نہیں پارہا کہ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکہ میں جمہوریت کے لئے محبت اتنی شدید کیوں ہوگئی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت