معلم کا پیغمبرانہ پیشہ تب اور اب : ڈاکٹر شہزاد اقبال شام


اخبار کھولوں یا کسی اور ذریعے سے خبر ملے، جھٹکا سا لگتا ہے۔ جگر چھلنی ہو جاتا ہے۔ جامعات ہوں یا کالج، اسکول ہوں یا اکیڈمیاں، خبروں کی نوعیت یک رنگی، یکساں سرخیاں، یکساں متن۔ پیغمبری بستی میں یہ کون لوگ آ گھسے ہیں؟ اپنے عہد میں تو کچھ اور ہی دیکھا تھا ہم نے۔ 60-65 سالہ عمر تک اولادیں تو ہوتیں لیکن جہاں تک رکھ رکھاؤ کا تعلق تھا تو 45-50 کا ہندسہ عبور کرتے ہی کیا عورت کیا مرد, کیا ان پڑھ اور کیا اعلیٰ سند یافتہ سبھی اپنے چہرے پر ایک متبرک بزرگانہ نورانی سا ہالہ طاری کر لیتے تھے۔ اس حد فاصل کے چار چھ سال پیچھے سبھی کا واسطہ ایک بزرگانہ مسکراہٹ سے پڑتا تھا۔ اور آج یہ حال کہ 70 سے متجاوز معززین کی نشست و برخاست اور نو عمر مراثیوں کی اٹھک بیٹھک میں یکساں مماثلت۔ قارئین کا مطالبہ رہتا ہے کہ ماضی پر بھی لکھا کرو۔ لیجئے آج چند جھلکیوں سے کام چلائیے۔

آج ہر فن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کے طور طریقے قیامت کا قرب بتا رہے ہیں۔ اپنی مجال کہاں کہ ماہرین کا نقد کروں۔ الٹے بانس بریلی قسم کا کوئی وقوعہ ہو تو البتہ لرز جاتا ہوں کہ ہو نہ ہو قیامت قریب ہے۔ سبھی سے یہی سنا کہ افسر ماتحت کو سلام کرے ہے تو شاگرد استاد کی سیوا کرتا ہے، چھوٹا بڑوں کے آداب بجا لاتا ہے۔ پر صاحب، اس خاکسار نے اپنے بانس الٹی گنگا میں بہہ کر بریلی کو جاتے پائے اور قیامت ہے کہ آتی ہی نہیں۔ آئے دن کے محیرالعقول وقوعات کے سبب توبہ تلا کے مواقع مجھے البتہ وفور سے ملتے ہیں۔

اولا استاد، پھر پڑوسی ثم سرپرست اور بالآخر حکام بالا میں سے ایک۔ محترم ڈاکٹر سہیل حسن نے عیدالفطر پر مع اپنے اہل خانہ کے ہمارے ہاں تشریف لا کر ہم سب کو شاد کام کر دیا۔ بے مثال و بدون تمثیل۔ میں اپنے 42 ہم جماعتوں میں اوسط سا طالب علم تھا، اساتذہ سے تعلقات طالب علمانہ قسم ہی کے رہے۔ لیکن ٹھہریے، اساتذہ ہی نہیں میں فی الاصل اولیا اللہ کی گرفت میں رہا۔ ڈاکٹر انیس احمد (موجودہ وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی) کو کہیں سے سن گن ملی کہ یہ شخص ضرورت مند تو ہے لیکن بلند خودی کا دعویدار بھی ہے۔ میری ملفوف خودداری کو گزند پہنچائے بغیر ڈاکٹر صاحب وہ حالات پیدا کر دیتے تھے کہ میری محنت کے سبب بہت کچھ مل جاتا۔ پڑھائی کے بعد ملازمت ملی تو ڈاکٹر سہیل حسن کا فرمان ہوا کہ ہم مل کر ایک بڑا گھر لیتے ہیں۔ یوں ہم پڑوسی قرار پائے۔ “میاں! کچھ گھر ور بسانے کا ارادہ ہے یا خلیل خان بنے فاختائیں اڑاتے رہو گے”. سیاں انگلی مروڑی، رام کسم سرما گئی.

یوں ڈاکٹر سہیل ترقی یافتہ ہو کر اب سرپرست بن گئے۔ اسلام آباد تا کراچی متعدد جگہوں پر انہوں نے قومی یکجہتی کی خاطر ہاتھ ڈالا۔ استاد محترم بیرسٹر فرخ قریشی اپنی اور میری والدہ کو ساتھ لیے ایک دوسرے انداز میں کوشاں رہے۔ کالج والے مقصود احمد مرحوم (پروفیسر حیاتیات) میرے استاد تو نہ تھے لیکن مجھے ملازمت ملتے ہی یوں فون کرنے لگ گئے: “کل بیگم درس قران کے بعد واپس گھر آتے ہی بولیں: “شہزاد کے لیے ایک لڑکی پسند کر آئی ہوں”. یزدان سے میرا یہی سوال رہا کہ تو سبھی اچھے لوگوں کو اتنی جلدی اپنے پاس کیوں بلا لیتا ہے۔

چند گلیاں پرے استاد مکرم پروفیسر حامد شریف ہمارے پڑوس میں تھے۔ وہ بعد میں سی ای او انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ بینک آف چائنہ رہے۔ آج کل اسلام اباد میں ہمارے پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں۔ تقریباً روزانہ ہم تینوں چائے یا کھانے پر جمع ہوتے۔ وہ بھلا پیچھے کیوں رہتے۔ میری شادی طے ہوئی تو بولے: “شہزاد! کچھ حصہ پتی میرا بھی ڈالو۔ میری گاڑی لے جاؤ. دلہنیا اسی میں لانا”۔۔ یوں میں نے کچھ قوس قزح سے رنگ لیا کچھ نور چرایا تاروں سے۔ ہاں تو پروفیسر ڈاکٹر صاحبان، کس حال میں آج آپ کی جامعات؟ ہے آپ میں وہ ذرا سا بھی دم خم جو بیان ہوا ہے؟

تین سال ڈاکٹر سہیل حسن اور میں ایک ہی مکان میں اوپر نیچے مقیم رہے۔ میرا تعارف کرانا ہوتا تو یوں کہتے: “ہے تو میرا شاگرد لیکن میں اس کے زیر سایہ ہوں”. کبھی یوں کہہ گزرتے: “اب یہ میرا شاگرد تو نہیں لیکن میں نے اب بھی اسے سر پر چڑھا رکھا ہے”. اگلی سکونت یوں رہی کہ گلی میں بالمقابل کے دو مکان مل گئے تو پانچ سال ہمارا پڑوس مزید برقرار رہا۔ پھر 16 سال کا وقفہ۔ آخری پانچ سال یوں شیر و شکر کہ اب ہمارے مکانوں کی پشتیں باہم متصل تھیں۔ میری شادی ان کے وسیلے سے نہ ہو سکی تھی، ہوئی تو انہوں نے مخصوص انداز میں اپنا غضب یوں انڈیلا: “شادی تو تمھاری ہونا تھی ہو گئی، ٹھیک ہوا۔ لیکن اوہ۔.۔ اللہ کے دنبے! مجھ سے نکاح ہی پڑھوا لیتے”۔ جملہ دل میں یوں ترازو ہوا کہ 26 سال بعد میرے بیٹے بیٹی دونوں کے نکاح انہوں نے بلسان خود پڑھائے۔

دوسری ہمسائیگی کے ایام میں ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو برصغیر کے اجل عالم مولانا عبدالغفار حسن بیوی کی رحلت پر ٹوٹ کر رہ گئے (وہی مولانا عبدالغفار حسن رحمہ اللّٰہ جو سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کو فوجی عدالت سے سزائے موت ملنے پر جماعت اسلامی کے امیر بنے تھے)۔ یاس اور افسردگی کا عالم کہ مولانا گم سم، بولنے پر آمادہ نہ جواب پر راضی۔ میرے ہم جماعت عبدالمنان بھٹی اگلی گلی میں مقیم تھے، بولے: “مولانا کی زبان کا قفل ایک شخص توڑ سکتا ہے: شہزاد اقبال شام”. طلبانہ ہوا. مولانا فیصل آباد رہنے کے سبب پنجابی سے واقف تھے۔ میں نے جاتے ہی کہا: “مولانا یہ ایک عبارت ہے، اچھی سی عربی تو بنا دیجئے”. پھر عرضِ کیا: “استانی نے بچوں کو ہوم ورک میں چند الفاظ دیے کہ ان کے جملے بنا لاؤ: کرسی، گاڑی، مطالعہ وغیرہ۔ ایک بچہ “مطالعہ” کا جملہ یوں بنا لایا: “ماما نے مجھ سے کہا: منے کو چھچھی آئی ہے, جا اسے متا لیا”. افسردگی کا تین روزہ بھرا بند ہنسی کی شکل میں ٹوٹا تو مولانا وہیں فرش پر لوٹیں لگانے لگ گئے.

ہاں تو پروفیسر ڈاکٹر صاحبان کس حال میں ہو یاران جامعات؟ ہے کچھ آج کے احباب میں میرے کسی ایک استاد والا دم خم؟ لیکن آپ تو وائی کیٹگری کے ترقیاتی مقالے پورے کرنے کو کولہو میں جتے ہوں گے۔ نہیں؟ میں نے غلط کہا؟ اوہ۔۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔۔ میں سمجھا۔ کسی بے چارے کا وائیوا ہوا ہے اور آپ نے اس کے مہینوں کے جیب خرچ پر کھڑی دعوت اڑانا ہوگی؟ ہے نا؟ جائیے, جائیے!