سستی بجلی ، ویلڈن شہباز شریف : تحریر مزمل سہروردی


وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز بجلی سستی کرنے کا اعلان کیا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 7.41 روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7.69روپے فی یونٹ کمی کی بھی خوش خبری سنائی گئی۔ گرمی کا موسم شروع ہوا ہی چاہتا ہے اس میں بجلی کی کھپت میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے۔ لوگوں نے پنکھے اور اے سی چلانے ہیں۔ اس لیے بجلی کے بلوں میں یہ ریلیف بہت ضروری تھا۔

میری پہلے دن سے یہ رائے تھی اور میں نے لکھا بھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا سیاسی حریف بجلی کا بل ہے۔ مہنگی بجلی کے بلوں نے مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو بھی پارٹی سے ناراض کیا ہے۔

اس لیے میری رائے یہی رہی ہے کہ بجلی کے بل ہی اس حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن بن چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) 2013کے مقام ہی پر کھڑی ہے۔ تب لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی جاتی تو سیاست نہیں بچتی تھی۔ آج بجلی سستی نہ کی جاتی تو سیاست نہیں بچتی تھی۔ لیکن تب مسلم لیگ (ن) نے تین سال میں دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ختم کر کے دکھا دی تھی۔ آج حکومت کے پہلے سال کے خاتمہ پر ہی شہباز شریف نے بجلی سستی کر دی ہے۔

بجلی کی قیمت میں بلا شبہ ریکارڈ کمی کی گئی ہے اس کے اچھے نتائج بھی ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین پر بجلی کی قیمت میں اتنی بڑی کمی یقینا بجلی بن کر ہی گری ہے۔ ان کے لیے یہ کمی سیاسی دھچکے سے کم نہیں۔ ایک سال پہلے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکزی حکومت سنبھالی تھی تو سب کہتے تھے کہ مرکزی حکومت نہ لی جائے۔ مرکزی حکومت سنبھالنا ایک سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ معیشت کی حالت ایسی نہیں کہ حکومت لی جائے۔

سخت فیصلے کرنے ہونگے۔ آئی ایم ایف نے جان کھا لینی ہے۔ بجلی مہنگی کرنی ہوگی۔ سب کچھ مزید مہنگا ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت سے دور رہا جائے لیکن کیا کسی کو اندازہ تھا کہ ایک سال بعد شہباز شریف بجلی کی قیمت میں تاریخ کی سب سے بڑی کمی کر دیں گے۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ سب کے سیاسی تجزئیے اور معاشی ماہرین کے معاشی تجزئیے سب غلط ہو گئے ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں اور کسی کو اس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بھی وزارتیں اسی لیے نہیں لی تھیں کہ انھیں بھی یہی خیال تھا کہ مرکزی حکومت سے دور رہنا ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کی طرح اس حکومت میں بھی معاشی مسائل زیادہ رہیں گے۔ مہنگائی بڑھے گی، ڈالر اوپر جائے گا، بجلی مہنگی ہوگی، جس کا سیاسی نقصان ہوگا۔

وہ اس سیاسی نقصان سے بچنے اور بعد میں ن لیگ کو ہونے والے سیاسی نقصان کا فائدہ اٹھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بلاشبہ شہبازشریف کو وزارت عظمی کے لیے ووٹ تو دیا تھا۔ لیکن ان کا سیاسی تجزیہ یہی تھا کہ یہ حکومت زیادہ دن نہیں چل سکے گی۔ معاشی بدحالی کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے گی۔ اس کو گرانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس لیے ابھی اس حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

لیکن شہباز شریف نے صرف سیاسی حریفوں کے ہی نہیں بلکہ سیاسی حلیفوں کے سیاسی تجزئیے بھی غلط ثابت کر دیے ہیں۔ ایک سال قبل کیے جانے والے تمام سیاسی تجزئیے غلط ثابت ہو گئے ۔ ایک سال قبل جو ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا اس کی معیشت سنبھل گئی ہے۔ سیاسی مخالفین حیران ہیں وہ ملک کو سری لنکا اور ڈھاکا بنانے کی تیاری کر رہے تھے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے۔ لوگ بجلی کا یونٹ سو روپے کا ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے اور یہاں قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں۔ اس لیے سب حیران ہیں۔

صرف بجلی ہی سستی نہیں ہوئی بلکہ مارچ میں مہنگائی بھی ساٹھ سال کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح کے کم ہونے کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ کہاں مہنگائی بڑھنے کے ریکارڈ بن رہے تھے کہاں مہنگائی کم ہونے کا ساٹھ سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی بھی کسی کو توقع نہیں تھی۔ سب کی رائے تھی کہ مہنگائی بڑھنے کا ریکارڈ بنے گا۔ سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ لیکن یہاں تو مہنگائی کم ہونے کا ریکارڈ بننا شروع ہو گیا ہے۔ یہ ریکارڈ بجلی سستی ہونے سے پہلے بن گیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ بجلی مزید سستی کی جائے گی۔ یہ بھی اچھی خبر ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ابھی تو پاکستانی آئی پی پی کے ساتھ معاملات از سر نو طے کیے گئے ہیں۔ ابھی چائنیز آئی پی پی کے ساتھ معاملات طے کیے جانے ہیں۔ چائنیز کا یہی موقف تھا کہ پہلے آپ پاکستانی آئی پی پی کے ساتھ از سر نو معاملات طے کر لیں پھر ہم کریں گے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب چائنیز آئی پی پی کے ساتھ جب معاملات طے ہونگے تو بجلی مزید سستی ہو جائے گی۔ اس ماحول میں جب دنیا میں ہر طرف مہنگائی کا شور ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بجلی سستی ہونا ایک بڑا واقع ہے۔

ایک طرف ٹرمپ کے ٹیرف کی وجہ سے پوری دنیا کی عالمی مالیاتی منڈیاں کریش کر گئی ہیں۔ عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں کے اربوں نہیں کھربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھی بھونچال ہے۔ عالمی کساد بازاری کی بات کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی اسٹاک مارکیٹ نہ صرف مستحکم رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب مئی میں بجلی کے بل آئیں گے تو لوگوں کو بل کم ہونے کا احساس ہوگا۔ اس سے پہلے وزیراعظم سولر صارفین کے ریٹ ریورس کرنے کی سمری کو بھی مسترد کر چکے ہیں۔ جس سے ہزاروں نہیں لاکھوں سولر صارفین کو تحفظ ملا ہے۔

صنعتی صارفین کے لیے گھر یلو صارفین سے کچھ زیادہ بجلی سستی کی گئی ہے۔ ایک رائے ہے کہ اس وقت ہمارے برآمد کنندگان کو مہنگی بجلی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ اب ان کے لیے مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔

ٹیرف کا اثر بھی سستی بجلی کم کرے گی۔ اس لیے برآمد کنندگان کے گلے شکوے بھی کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔صنعتی سستی بجلی صنعتوں کا پہیہ چلانے میں مدد کرے گی۔ صنعتوں کا پہیہ چلے گا تو روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور معیشت کا پہیہ بھی چلے گا۔ اس لیے سستی بجلی معاشی استحکام کا نیا باب کھولے گی اور پاکستان معاشی طور پر مزید مستحکم ہوگا۔ اس لیے ہم ویلڈن شہباز شریف ہی کہہ سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس