ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کل 46واں چار اپریل ہو گا جب ان کے مزار پر پھول رکھے جائیں گے۔ ان میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے بھٹو صاحب یا ان کا دور بچشم دیکھا ہے۔
گذشتہ کئی برسوں کی طرح بھٹو صاحب کی روح اس چار اپریل کو بھی شاید یہی سوچ سوچ کے بیچین ہو کہ سال بہ سال کون نت نئے چہرے ہیں جو میرا نام جپتے جپتے میرا ہی ڈیزائن کردہ پرچم پکڑے اس لیے حاضری بھرنے کا کشٹ اٹھاتے ہیں کہ اعلی قیادت گن لے کہ ہم بھی موجود ہیں۔ ان میں سے کتنے ہیں جو پارٹی کی تاریخ اور بنیادی منشور سے واقف ہیں؟
کبھی چترال سے مکران تک پھیلے ہزاروں مستانے کہاں گئے جو پاپیادہ یا سوزوکیوں اور ٹرالیوں میں لد کے گڑھی خدا بخش پہنچتے تھے۔ کوئی چہرہ جسے بھٹو پہچان لے؟
کیا یہ مانوس اجنبی سیاسی پس منظر کے ہیں یا جمہوریت ہماری سیاست ہے کے نعرے کی بجائے معیشت ہماری سیاست ہے پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا یہ زندوں کی بھی خبر گیری کرتے ہیں یا بس مزار کے پھول چننے آتے ہیں۔
چار اپریل کے بھٹو کو ویگوز اور ایس یو ویز سے کودتے مسلح محافظوں کے گھیرے میں رواں کڑکڑاتے لٹھے والے سفید پوش ہی زیادہ کیوں دکھائی دے رہے ہیں۔ پارٹی کا گردآلود چپل زدہ ووٹ بینک کہاں ہے؟
تو کیا چار اپریل 1979 کے بعد غربت ختم ہو گئی یا غریب ختم ہو گئے؟ یا گرد آلود مجنوں اس لیے نہیں آ پا رہے کہ جیب میں کرایہ بھی نہیں۔
چار اپریل کی معدوم ہوتی افسردہ ثقافت سے اگر صرفِ نظر کر لیں تو شپ شپا پارٹی کے موجودہ حالات اتنے برے بھی نہیں۔
بلوچستان میں وزیرِاعلی پیپلز پارٹی کا ہے مگر وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ہے؟ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنر پیپلز پارٹی کے ہیں۔ آپ میں سے کتنوں کو ان کا پورا نام معلوم ہے؟
آصف علی زرداری کا ضلعی کونسلر کا الیکشن ہارنے سے دوسری مرتبہ صدرِ پاکستان بننے تک کا سفر
9 مار چ 2024
شہباز اور زرداری کی جوڑی سلامت رہے
11 مار چ 2025
پیپلز پارٹی کھوئی مقبولیت بحال کرنے کے مشن پر: وہ سازش جس سے پنجاب کی مقبول ترین جماعت زوال کا شکار ہوئی
12 جنوری 2024
وہ بھٹو جو اپنی بہن کے دور حکومت میں مارے گئے
25 ستمبر 2019
مواد پر جائیں
یچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سینیٹ کی سربراہی بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ کیا سینیٹ کے معاملات اور چیئرمین سینیٹ کی رٹ بھی ہاتھ میں ہے؟
ایوانِ صدر بھی پیپلز پارٹی کو الاٹ ہے۔ مگر موجودہ صدرِ ذی وقار اتنے ہی بااختیار ہیں جتنے 2008 سے 2013 کے پانچ برس میں تھے؟ کیا بھٹو صاحب اور بینظیر کی طرح صدرِ مملکت کو بھی ایک ایک کاغذ باریک بینی سے پڑھ کے دستخط کرنے کا اختیار ہے، اگر ہے تو کب کب استعمال ہوتا ہے؟
واقعی اس پیپلز پارٹی کا عوام کی نبض پر اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا 27 دسمبر 2007 تک تھا تو پھر اس کے گڑھ (سندھ) کا روایتی ووٹ بینک آج اتنا اتالا کیوں ہے؟
کیا پہلے بھی کبھی ایسا وقت آیا کہ پارٹی قیادت کو قسمیں کھا کر جیالوں کو یقین دلانا پڑے کہ جو تم چاہتے ہو وہی ہم بھی چاہتے ہیں۔ تمھیں نہیں چاہییں نہریں تو بھاڑ میں جائیں چھ کی چھ نہریں۔
میری عمر کے لوگوں کو یاد ہے کہ جب بھٹو صاحب نے 1972 میں کراچی کے نشتر پارک میں بپھرے مجمع سے پوچھا کہ آپ کو بنگلہ دیش منظور ہے؟ مجمع نے باآوازِ بلند کہا۔۔۔ نامنظور۔
بھٹو صاحب زیرک آدمی تھے۔ انھوں نے دو منٹ مجمع کے مزاج کو تولا اور کہا کہ ٹھیک ہے، منظور نہیں تو نہ سہی۔ جہنم میں جائیں۔۔۔
اور پھر دو برس بعد اسلامی سربراہ کانفرنس کے سٹیج سے جب بنگلہ دیش کی منظوری کا اعلان ہوا تو ان ہی ووٹروں نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا۔
لیکن وہ بھٹو تھا۔ کارکنوں اور ووٹروں کو اعتماد تھا کہ بھلے کتنے ہی کڑوے فیصلے کر لے مگر ہمیں کم از کم نہر کے کنارے پر لا کر خرکاروں کے ہاتھوں کبھی نہیں بیچے گا۔
کیا آج کی قیادت پر بھی جیالوں کو پورا چھوڑ آدھا بھروسہ ہے کہ وہ کم ازکم بنیادی عوامی مفادات کا سودا نہیں کرے گی؟
،صدرمملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اہم فیصلوں میں عدم شراکت داری اور تمام وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ کیا
پیکا کے ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے باآسانی منظور کروانے میں مدد دینے کے بعد سندھ سمیت ہر جگہ صحافیوں اور یوٹیوبروں کے خلاف پرچے کٹ رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی صفِ دوم کی قیادت اور ارکانِ پارلیمان پیکا قوانین کو بدستور فسطائیت کا مظہر کہہ رہے ہیں۔
سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کی سمجھ میں یہی نہیں آ رہا کہ اس نوٹنکی پر ہنسیں کہ روئیں۔
عالم یہ ہے کہ بلوچستان کا گلے میں پڑا ڈھول اجرتی ڈنڈوں سے بجانا پڑ رہا ہے۔
سندھ کا ووٹر اس بھول بھلیاں میں پھنسا ہوا ہے کہ صدرِ مملکت نے گذشتہ برس پہلے تو آٹھ جولائی کو زراعت میں خودکفالت کے دعوے دار سرسبز پاکستان منصوبے کی بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کی بنیاد شش نہری نظام کو تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تلقین کی۔
اور پھر ان ہی صدرمملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اہم فیصلوں میں عدم شراکت داری اور تمام وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ کیا۔
آدمی ان میں سے کس بات پر یقین کرے؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے کوئی اطمینان بخش امید ہے تو بس یہ کہ اس کے مخالفین اکثر وہ ہیں جو اپنے بل بوتے پر کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے مگر اس ملک یا کسی صوبے میں اقتدار کی ادلا بدلی کی گیم میں سیٹوں کی کم زیادہ تعداد کب رکاوٹ بنی؟
مجھے وزیرِاعلی سندھ کا یہ کہنا اچھا لگا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نہروں کی تعمیر کی منسوخی کا اعلان کریں۔حالانکہ وزیرِاعلی کو بھی اچھے سے معلوم ہے کہ جس سے وہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ بھی اہم فیصلہ سازی میں اتنا ہی بااختیار ہے جتنے خود مراد علی شاہ۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس وقت وفاقِ پاکستان میں شہباز شریف کو ملا کے پانچ وزرائے اعلی ہیں اور سب کے سب مساوی بیاختیار ہیں۔
اس پر طرہ یہ کہ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت ہر ہفتے کسی نہ کسی رکنِ پارلیمان کو یہ کہنے کے لیے آگے کر دیتی ہے کہ اگر معاملات یونہی یکطرفہ چلتے رہے تو ہم اپنا راستہ الگ کر لیں گے۔ مگر یہ ہو گا کیسے؟
اگر یہ گمان ہے کہ آپ اپنی مرضی سے موجودہ ہائبرڈ ڈھانچے سے باہر نکل جائیں گے تو یہ فیصلہ بھی ان کی رضامندی کے بغیر کیسے ممکن ہے جنھوں نے آپ کو موجودہ سیٹ اپ کا ستون بنایا۔
خودمختار سیاسی فیصلے تب ہی ممکن ہیں جب تکیے میں فارم 47 کے بجائے ووٹ بھرے ہوں مگر مسلسل عوامی سیاست فی زمانہ خسارے کا کاروبار ہے۔
اور یہ راز مسلم لیگ ن سے بہتر کون جانتا ہے کہ کسی پولٹیکل انڈسٹریل سٹرٹیجک کارٹیل کا حصہ بننے کے بعد کوئی سیاسی لمیٹڈ کمپنی اپنے بنیادی شئیر ہولڈرز کے علاوہ کسی کو جوابدہ نہیں رہتی۔
موجودہ پیپلز پارٹی کا بھی یہی بزنس ماڈل ہے۔