جدوجہدکشمیرکو سبوتاژنہ کیجیے۔۔۔شکیل احمدترابی


اگرچہ مظفرآباد میں موجود ہمارے ادارے سے وابستہ ساتھی عبدالواجد سے مسلسل رابطے کے نتیجے میں مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان و چیئرمین کشمیر کونسل کے دورہِ مظفرآباد کی سرکاری سطح پر کوئی خبر جاری کی گئی نہ ہی زرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دورے و کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس سے متعلق کسی بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔
جمعرات کی شام سماجی رابطے کے صفحات پر مظفرآباد کے انتہائی باخبر و متحرک صحافی میرے عزیز بھائی طارق نقاش کے تبصروں سے ان کی بے چینی کا اندازہ ہو رہاتھا۔ عامِل صحافی گرم سرد کی پرواہ کرتا ہے نہ اسے کسی تقریب میں کھانے پینے یا کِسی اور شغل سے اسے دلچسپی ہوتی ہے، وہ ہر شئے کو بالائے طاق رکھ کر ترجیحِ اول خبر کو دیتاہے۔طارق کی بے چینی ایک نہیں تین اہم سرکاری اہلکاروں کی غفلت کا ماتم کررہی تھی۔ وزیراعظم پاکستان اور وزیرامور کشمیر کے پریس سیکریٹریز میں سے کسی کو یہ خبر جاری کرناتھی۔ انھوں نے ایسانہ کیا تو محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر کے ارباب بست وکشاد کو تو اس کااہتمام لازم بنانا تھا۔
مگر سب کی خاموشی سے چندے آفتاب و ماہتاب کا گماں ہوتا ہے۔ نہلے پر دہلا تو مسلم لیگ آزاد کشمیر کے اِس رہنما نے ماراجِس نے اپنی حکومت کی بدانتظامی کی مذمت کی بجائے طارق کو کہا کہ “تم اچھے باخبر صحافی ہو جس کو یہ تک معلوم نہیں کہ کشمیر کونسل کے اجلاس میں کیا ہوا۔ سیاسی افلاطون شاید یہ سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کو غیب کا عِلم ہے جس کی بِناپر وہ بند کمروں کی خبریں بھی دے سکتے ہیں۔
میرے مذکورہ صحافی بھائی نے فرمایاکہ میاں نوازشریف حزب اختلاف میں تھے تو درجن بھر اراکین اسمبلی کے جھرمٹ میں مظفرآباد کے پریس کلب تشریف لایا کرتے تھے، نہ جانے طارق نے ایسا کیوں کہاحالانکہ صحافتی سیاحی میں وہ دوعشروں سے زائد عرصہ گزارچکے ہیں۔ صحافی کوتویہ”عظیم ومتبرک ہستیاں” قریب سے دیکھنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے انھیں ان “سیاسی بکروں” کے دانت گن کے عمر کا حساب نہیں نکالنا پڑتا ایسے ہی انھیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حزب اختلاف و اقتدار کے رموزِکار میں کیا فرق ہوتاہے ا ور یہ کہ حزب اختلاف میں بڑھکیں مارنا خاصا آسان ہوتا ہے۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں وزیر اعظم پاکِستان نوازشریف بھول گئے کہ سیزفائرلائن کے اُس پر کشمیری کِن حالات سے گزرکے آزادی کی تحریک کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیرکونسل کے اجلاس کے مختلف شرکاء سے بات چیت کے نتیجے میں حاصل معلومات کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ جناب نواز شریف نے فرمایا میثاق جمہوریت پر قائم ہیں۔ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والے لاعلاج ہیں۔ کاش پاکستان کے سیاسی اختلافات کو میاں صاحب کوہالہ کے اِس پار چھوڑ کرجاتے۔ آزادی کے بیس کیمپ میں جرات مندانہ کا مظاہرہ کرتے اور تحریک آزادی کشمیر کو نتیجہ خیز بنانے تک اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کی بات کرتے۔
وزیر اعظم نے اپنے آپ کو شہداء کشمیر کے لئے فاتحہ خوانی اور بھارتی گولہ باری سے متاثرہ بس کے معائنے تک محدود رکھا۔موصوف کو کون سمجھائے کے حضوراپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے کشمیری اپنی مراد پاکے اللہ کی ابدی جنتوں پہنچ گئے۔ وہ آپ کی دعائوں کے محتاج نہیں ۔آپ کو تو زخم خوردہ کشمیریوں کے لئے کسی دواء کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔ نوازشریف کی غفلت پرآزاد کشمیر کے سیاستدانوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی مذمتی بیان نہ دیا۔ چوسنی ملنے پر” وہ” بھی خاموش رہے جو اِس زُعم میں مبتلا ہیں کہ میدان جہاد میں ارتعاش انہی کے دم قدم سے ہے۔آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے قبرستان کی سی خاموشی کامظاہرہ کیامگر ہرلمحے کشمیر کے لئے ڈھارس کا سامان کرنے والی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے ہفتہ کی شام اسلام آباد میں کشمیروشام کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے بڑے جلسے سے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم نوازشریف مظفرآباد گئے وہاں پر سکیموں اور فنڈز کی بات تو کی لیکن مظلوم کشمیریوں کی آزادی کیلئے کوئی روڈ میپ نہ دیا ۔2016کشمیری بچوں ،نوجوانوں ، ماوں اور بہنوں کیلئے قتل گاہ بن گیا ہے ۔ ہزاروں کشمیری زخمی ہیں۔سینکڑوں بینائی سے محروم کردیئے گئے ہزاروں قید ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 100سے زائد دن کرفیو نافذ رہا لوگ بھوک سے بدحال تھے لیکن پھر بھی انہوں نے پاکستان ہمارا ہے کے نعرے لگائے ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں پر قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ وہ بھارت کو کوئی پیغام نہ دے سکے کشمیریوں کی ساری جدوجہد پاکستان کی بقاء اورتکمیل پاکستان کیلئے ہے ۔
ہمارے حکمرانوں نے اس جدوجہد کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بزدلی اور بے حسی کاچلن ہے۔اگر ہمارے حکمران سو رہے ہیںتو قوم جاگ رہی ہے آج کی ریلی نے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے لاکھوں جوان ابن قاسم ، غزنوی اور ابدالی کا کرداراداکرنے کیلئے تیار ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ مودی اور اس کے ٹولے نے پاکستان کوبنجر بنانے کیلئے ہمارے دریائوں کا رخ موڑنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے سب کچھ سننے کے باوجوداپنے اوپر مجرمانہ غفلت کی چادر اوڑھ رکھی ہے ۔ہم نے1971میں بھی کہا تھاکہ پاکستان کو توڑنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن ہماری بات نہ سنی گئی ۔آج بھی خبردار کرتا ہوں کہ بھارت پاکستان کے دریائوں پر قبضہ کرنا چاہتاہے تاکہ پاکستان ویران ہوجائے اورکروڑوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں ۔بھارت کے اس اقدام کا سخت اور اسی زبان میں جواب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس کیلئے محب وطن اور شیر دل قیادت کی ضرورت ہے ۔ یہ ہمارے مستقبل اور آئندہ نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے ۔پاکستان اللہ کی نعمت اور امانت ہے اس کی حفاظت کرنا ہمارے ایمان کا تقاضاہے۔
کشمیر کونسل کے اجلاس کی اصل کہانی تو ابھی تک باہر نہ آسکی مگر وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے دودن بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے ہمارے زیادہ تر مطالبات مان لئے اور باقی کے حل کی یقین دہانی کرائی ہے۔ فاروق حیدر کی پہچان ایک جرات مند اور بے باک سیاستدان کے طورپر رہی ہے۔حکومت سنبھالنے کے بعد ہم ان سے ایسی مبہم باتوں کی توقع نہیں رکھتے۔ راجہ صاحب کو وضاحت کرنی چا ہیے کہ کیا منگلا ڈیم کی رائلٹی کی ادائیگی کا مطالبہ مان لیا گیا ہے؟کشمیر کی اربوں روپے کی جائیداد کی مالک کشمیر کونسل ہے یا آزاد کشمیر کی ریاست؟ کیااس کھلی غنڈہ گردی وڈاکہ زنی کے سدباب کے ساتھ ساتھ ہائیڈل پاورکی مستقبل کی آمدن کے معاملات کو حل کر دیاگیاہے۔ ؟
راجہ صاحب آپ سے بہتر ان امور کوکوئی جانتاہے نہ بات کر سکتا ہے۔ آپ کواچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہمارے درجنوں مطالبات نہیں درج بالا صرف تین امور ہی طے کر دیئے جائیں تو ہم اپنے پائوںپر کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں پھر پاکستان کی نوکرشاہی کے سامنے کاسہ گدائی نہیں پھیلانا پڑے گا۔