آہ کیا تھے وہ لوگ اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ اپنی دنیا کے قیدی ،بالیشتئیے۔۔۔شکیل احمد ترابی


ہم عشق رسول کے دعوے کرتے ہیں”سگے بھائی کو معاف نہیں کرتے،تولتے ہیں تو کم ،بولتے ہیں تو جھوٹ ،لکھتے ہیں تو اپنے مفاد کے لئے“۔
ہم حکمران ہوں یا رعایا آپ کے اُسوہ کی کوئی چھوٹی سی رمق ہمارے کردار میں کہیں نظر آتی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں تو زبانی کلامی عشق کے دعوﺅں سے کیا ہم بخشے جائیں گے؟؟
اﷲ تو فرماتے ہیں “پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزر یں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے۔
خود نبی کریم پر بلا کی سختیاں ڈھائی گئیں۔
کفارِ مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور کو قتل تو نہیں کر سکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے چنانچہ سب سے پہلے تو حضور کو کاہن، ساحر، شاعر، مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں زور دار پروپیگنڈہ کیا گیا۔ آپ کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیا جو راستوں میں آپ پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے ،یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے، کا شور مچا مچا کر آپ کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفار مکہ آپ کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ کے جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ کی مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔ آپ کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔
حضرت خباب بن الارت ؓاس زمانے میں اسلام لائے جب حضور حضرت ارقم بن ابو ارقم ؓ کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ قریش نے ان کو بے حد ستایا۔ یہاں تک کہ کوئلے کے انگاروں پر ان کو چت لٹایا اور ایک شخص ان کے سینے پر پاﺅں رکھ کر کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی اور رطوبت سے کوئلے بجھ گئے۔ برسوں کے بعد جب حضرت خباب ؓنے یہ واقعہ حضرت امیر المومنین عمر ؓکے سامنے بیان کیا اوراپنی پیٹھ کھول کر دکھائی۔ پوری پیٹھ پر سفید سفید داغ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ اس تکلیف دہ منظر کو دیکھ کر حضرت عمر ؓکا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔
حضرت بلال ؓکو جو امیہ بن خلف کافر کے غلام تھے۔ان کی گردن میں رسی باندھ کر کوچہ و بازار میں ان کو گھسیٹا جاتا تھا۔ ان کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی جاتی تھیں اور ٹھیک دوپہر کے وقت تیز دھوپ میں گرم گرم ریت پر ان کو لٹا کر اتنا بھاری پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا تھا کہ ان کی زبان باہر نکل آتی تھی۔ امیہ کافر کہتا تھا کہ اسلام سے باز آ جاﺅ ورنہ اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاﺅ گے۔ مگر اس حال میں بھی حضرت بلال ؓکی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا بلکہ زور زور سے احد، احد کا نعرہ لگاتے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ” خدا ایک ہے،خدا ایک ہے“۔
حضرت عمار بن یاسر ؓکو چت لٹا کر کفار قریش اس قدر مارتے تھے کہ یہ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی سمیہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو اسلام لانے کی بنا ءپر ابو جہل نے ان کی ناف کے نیچے ایسا نیزہ مارا کہ یہ شہید ہوگئیں۔ حضرت عمار ؓکے والد حضرت یاسر ؓبھی کفار کی مار کھاتے کھاتے شہید ہو گئے۔ حضرت صہیب رومی ؓکو کفار مکہ اس قدر اذیت دیتے اور ایسی ایسی سزائیں دیتے کہ یہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔ جب یہ ہجرت کرنے لگے تو کفار مکہ نے کہا کہ تم اپنا سارا مال و سامان یہاں چھوڑ کر مدینہ جا سکتے ہو۔ آپ خوشی خوشی دنیا کی دولت پر لات مار کر اپنی متاع ایمان کو ساتھ لے کر مدینہ چلے گئے۔
نبی مہربان کے عفو در گزر کا ثمامہ سے سلوک پر غور کیجئے۔
وہ نڈر تھا،جرنیل تھا،تاجورتھا،گورنر تھا،
پکڑ کر لایا گیا۔
مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیاگیا۔
رسول پاک تشریف لے گئے ،دیکھا،خوبصورت چہرہ،لمبا قد،تواناجسم،بھرا ہوا سینہ،اکڑی ہوئی گردن،اٹھی ہوئی نگاہیں،تمکنت،شان و شوکت،سطوت،شہرت ہے،
حکمرانی کے جتنے عیب ہیں سارے پائے جاتے ہیں،
سرور رسول آگے بڑھے ،کہا
ثمامہ! کیسے ہو؟
ثمامہ بولا: گرفتار کر کے پوچھتے ہو کیسا ہوں؟
رسول پاک نے فرمایا:کوئی تکلیف پہنچی ہو؟
کہتا ہے:نہ تمہاری تکلیف کی کوئی پرواہ ،نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو جی چاہے کر لو۔
رسول پاک نے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے،
اپنے صحابہ کو دیکھا، پوچھا اس کو دکھ تو نہیں پہنچایا؟
عرض کرتے ہیں یا رسول گرفتار ہی کیا ہے دکھ کوئی نہیں پہنچایا،
پیکر حسن و جمال نے فرمایا:ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ تو سہی،
ثمامہ کہتا ہے :کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو، جا نہیں دیکھتا، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدل لیا جائے گا۔ثمامہ کا جواب سُن کر جبرائیل بھی غیظ و غضب میں آ گئے ہوں گے،عُمر فاروق ؓکے پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی ،تلوار کے میان پر ہاتھ تڑپنے لگا،
اشارہ ابرو ہو اس کی گردن ہو محمد ؓکے قدم ہوں، یہ کیا سمجھتا ہے،
لیکن رحمتہ اللعالمین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے،فرمایا، جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لولیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو۔
ثمامہ نے کیا جواب دیا:اس نے مدینے والے کو دیکھا ہی نہیں تھا،اس نے کہا کہ تمہارا چہرہ کیا دیکھوں،کائنات میں تجھ سے بدصورت کوئی نہیں ہے(نعوذ باﷲ)
اس کو کہا جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا:
حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاوری
آنچہ خوباں ہمہ دار ندتو تنہاداری
لوگو! یہ ہے وہ پیغمبر رحمتہ اللعالمین جن کے نقش قدم پر تم نے چلنا ہے۔جب بے آسرا تھا تب بھی گالیاں کھائیں، شکن نہیں ڈالی، آج تاجدار تھا اپنے گھر میں گالی سنتا ہے لیکن پیشانی پر شکن نہیں ڈالتاہے،
فرمایا:کوئی بات نہیں،میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو،
اس نے کہا :میں نے روم و یونان ایران و مصر کی بستیاں دیکھیں مگر تمہاری بستی کائنات کی سب سے بدصورت بستی ہے(نعوذ باﷲ)
اس بستی کو کیا دیکھوں؟
رحمتہ اللعالمین نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔
دوسرے دن آئے پھر وہی جواب،
تیسرے دن پاک پیغمبر آئے فرمایا:ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے ،ذرا دیکھ تو لو،
کہتا ہے:نہیں دیکھتا، اب؟
آسمان گوش برآواز تھے،
زمین سہمی پڑی تھی، آسمان ساکن تھا بےچارہ،
دیکھیں!آج اس نبی رحمت کی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے،
لوگوں نے دیکھا، کائنات نے دیکھا، آسمان طیبہ نے دیکھا، مسجد نبوی نے دیکھا، اس ستون نے دیکھا جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا،
اب حکم صادر ہوگا اس کی گردن اڑ جائے گی،
مگر
ہمیشہ مسکرانے والا پاک پیغمبر مسکرایا،فرمایا:جاﺅ !ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے چلے جاﺅ، ہم نے اِسے رہا کر دیا ہے،ہم تجھے کچھ نہیں کہتے تو بڑا آدمی ہے،بڑے ملک کا حکمران ہے تو نہیں دیکھتا ہم تجھے کیا کہیں گے، جاﺅ
اور اپنے صحابہ کرام ؓکو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کے لیے بے تاب تھیں،ان کو کہا،
بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جا کر اس کو مدینہ سے رخصت کر دو،
انہوں نے چھوڑا ،پلٹتے ہوئے اس کے دل میں خیال آیا، بڑے حکمران بھی دیکھے ،محکوم بھی دیکھے،جرنیل بھی دیکھے،صدر بھی دیکھے،کمانڈر بھی دیکھے،اتنے حوصلہ والا تو کبھی نہ دیکھا۔
اس کے چہرے کو دیکھوں ہے کیسا۔
”بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا“
پھر دیکھتا ہے ،دیکھ کر سرپٹ بھاگا،دڑکی لگا دی اور پھر
آگے میں نہیں کہتا ثمامہ سے سنیں!وہ کیا کہتا ہے ۔
کہا،قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا۔
دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا اس سے دگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا،
وہ ماہ تمام زندگی زمین پہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اپنے یاروں کے ساتھ ننگی زمین پر بیٹھا ہوا تھا،
صحن مسجد پر ننگے فرشوں پر آیا۔
نبی کریم نے نگاہ ڈالی سامنے ثمامہ کھڑا ہے،فرمایا ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آ گئے؟
کہا،مجھ کو اپنا بنا کر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے،
چھوڑا تب تھا جب آپ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپ کا چہرہ دیکھ لیا ،اب
زندگی بھر کے لیے آپ کا غلام بن گیا ہوں۔
سبحان اﷲ
آئیں ذرا میں اور آپ اپنے کردار کا جائزہ لیں ہم دوسروں سے معافی کا سلوک کرتے ہیں؟
دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں یا مشکلات؟
آپ کے اُسوہ کی کوئی جھلک ہمارے کردار و گفتار سے عیاں ہے؟؟
اگر ایسا نہیں تو عشق کے دعوﺅں کی بجائے ہم کو سچے دل سے اﷲ سے معافی مانگ کر ابھی سے آپ سے حقیقی عشق کا ثبوت دینا ہوگا۔
یہ ثبوت گفتار کا غازی بن کے نہیں کردار سے دینا ہو گا۔
اﷲ ہمیں حضور نبی کریم اور صحابہ کرام ؓکے اسوہ پر عمل کی توفیق بخشے۔