منقش مرغ اور اونی بھیڑ کی حکایت…وجاہت مسعود


غریب قلم مزدوروں کی کیا بضاعت ہے۔ سیٹھ صاحب اور ان کے موروثی پرچہ نویسوں کی نگہ نیم باز کے اشارے پر رکھے چراغ ہیں۔ اک پل کی پلک پر دنیا ہے۔ صاحبان محرم راز نے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو روٹیوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے فیض صاحب جیل گئے تو مشتاق گورمانی کی بن آئی اور سالک صاحب کی سرگوشی سے ’’امروز‘‘ میںچراغ حسن حسرت کا چراغ دھواں دے گیا۔ کچھ ہفتے قبل بندہ بے مایہ نے برادرم سہیل وڑائچ کو اسنائپر شوٹر کا خطاب دیا تھا۔ گزشتہ کالم میں مگر قبلہ نے ایک جملہ ایسا لکھ دیا کہ شیشہ دل صاف ہو گیا۔ فرمایا، ’’اپنی تعریف صرف شاعروں کی تعلی میں ہی ہضم ہو سکتی ہے، عاجز قلم مزدوروں کو یہ زیبا نہیں‘‘۔ ایسی بات اسی صاحب نظر کے قلم سے ادا ہو سکتی ہے جو حفیظ جالندھری اور صلاح الدین احمد میں فرق سمجھتا ہو۔ تعلی میں لگتا ہی کیا ہے، ذرا سی خود پسندی اور کچھ خود فریبی۔ ہمارے ایک بھلے مانس ہم عصر ہیں۔ دنیا کا کوئی واقعہ ہو، حضرت یا تو عینی شاہد ہوتے ہیں یا واقعے کا مرکزی کردار۔ بیچ بیچ میں اپنی بلندکرداری کا ٹانکا بھی لگا دیتے ہیں تاکہ آئندہ مورخ کو ان کا مقام متعین کرنے میں دشواری نہ ہو۔ آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ گزشتہ روز جنرل فیض علی چشتی صاحب رحلت فرما گئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ان کی ہمشیر زادی قدرے غیر محتاط نہ ہوتیں تو جنرل صاحب ہماری تاریخ میں وہی درجہ پاتے جو جنرل نجیب کے رفیق جمال عبدالناصر کو نصیب ہوا۔ حضرت نے Betrayal of another kind کے عنوان سے خود نوشت سوانح بھی لکھی۔ اس تصنیف لطیف سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیاالحق مقامات اقتدار میں فیض علی چشتی کے مرشد تھے۔ چشتی صاحب تو نرے مرغ منقش تھے۔ضیا الحق مرغان منقش کے علاوہ اونی بھیڑوں پر بھی کاٹھی ڈالنا جانتے تھے۔

25 مئی 1978کو قومی اتحاد کے سربراہ مفتی محمود نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کو خط لکھ کر پیشکش کی کہ اگر مارشل لا انتظامیہ ایک منصفانہ انتخاب کے لیے قومی حکومت کا قیام مناسب سمجھتی ہو تو پاکستان قومی اتحاد یہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ خود ساختہ سربراہ مملکت نے یہ مخلصانہ پیشکش قبول کرتے ہوئے 5جولائی 1978کو نئی کابینہ تشکیل دی۔ بعد ازاں 23اگست 1978کو قومی اتحاد کے متعدد رہنما کابینہ میں شامل کر لیے گئے جن میں جماعت اسلامی کے چوہدری رحمت علی، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمد اور محمود اعظم فاروقی شامل تھے۔ اس دوران 16 ستمبر1978کو جنرل ضیاالحق نے پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا اور 4اپریل 1979کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ دونوں مراحل طے ہونے کے بعد 21اپریل 1979کو کابینہ تحلیل کر دی گئی۔ اونی بھیڑیں فوجی اصطبل سے داغ ہو کر گھر چلی گئیں اور منقش مرغ زیب دربار ہوئے۔ اب اس میں دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ جولائی 1977سے1981تک فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی جنرل فیض علی چشتی وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔ تاہم اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق سے انکے اختلافات کا آغاز تب ہوا جب انہوں نے تین ماہ میں انتخابات منعقد کرنے کے وعدے سے انحراف کیا۔ سبحان اللہ! یہ عجیب اختلاف تھا کہ چار برس تک جنرل صاحب نے کسی کو اس کی بھنک نہیں پڑنے دی۔ جنرل صاحب کی حق گوئی کا یہ عالم تھا کہ ان کی خود نوشت جنوری 1989میں شائع ہوئی جب جنرل ضیاالحق کو زیر زمین پہنچے کئی ماہ گزر چکے تھے۔

سطور بالا میں کہیں مولانا مفتی محمود کا ذکر آیا ہے۔ مفتی صاحب جنوری 1919میں پیدا ہوئے۔ جمعیت علمائے ہند کے اس دھڑے سے تعلق رکھتے تھے جس میں مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا احمد سعید، مولانا محمد سجاد بہاری جیسے جید علما شامل تھے اور تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے۔ تقسیم ہند کے وقت مفتی محمود کم عمر تھے تاہم قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم ملتان سے سیاسی سرگرمی شروع کی۔ 1970 ء کے انتخابات کے بعد وہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی قائم کردہ جمعیت علما اسلام پاکستان کے صدر بنے۔ جمعیت علما اسلام پاکستان کے اس دھڑے کا کم و کاست ’’مولانا احتشام الحق تھانوی کی آپ بیتی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری سے معلوم کیجیے جسے مولانا احتشام الحق تھانوی اکادمی نے 1993ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کا بیشتر حصہ جماعت اسلامی پر تنقید و تنقیص سے مملو ہے لیکن اس کتاب کے صفحات 35تا 37پر کچھ مندرجات معلومات افزا ہیں۔ اختصار کے خیال سے صرف اقتباس پیش خدمت ہیں۔ اس سے مفتی صاحب کے مکتوب بالا اور فوجی آمریت کے رفقا کی سیاسی بصیرت پر روشنی پڑتی ہے۔

’’بہت سے علما و مشائخ مسلم لیگ کے ہم خیال تھے لیکن جمعیت علمائے ہند جیسی علمائے کرام کی کوئی مقتدر جماعت مسلم لیگ کی حلیف نہ تھی۔ مسلم لیگ میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نوابوں وغیرہ کی اکثریت تھی۔ ان میں سے اکثر کی سیرتیں فسق و فجور کے انہی سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھیں جو عام طور پر سرکار پرست امرا کی سمجھی جاتی ہیں۔ یہ مسلم لیگ کا بہت کمزور پہلو تھا‘‘۔

’’جمعیت علمائے اسلام کا قیام دراصل مسلم لیگ کی ضرورت تھا۔ مسلم لیگ کے ایما پر اس کا قیام عمل میں آیا۔ مسٹر محمد علی جناح کو خاص طور پر اس سے دلچسپی تھی۔ اس سلسلے میں جن علمائے دیوبند کی اس سے دلچسپی کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ان کا اخلاص، علم و فضل، علوم و معارف اسلامیہ میں ان کا تجربہ مسلمات سے تھا لیکن ان میں سے کوئی سیاسی آدمی نہیں تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو اس کا صدر بنایا گیا تھا لیکن اس کے قیام سے حضرت مرحوم کی دلچسپی اور اس میں ان کی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ وہ اس کے پہلے اجلاس میں شریک بھی نہیں ہوئے تھے‘‘۔

’’الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کے بعد جمعیت کا نام بھی سننے میں نہ آیا۔ قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک اس کا نام سنا گیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع وغیرہ اس کے صدر بنائے گئے لیکن کسی کے نزدیک اس کی اہمیت ان کے اپنے وجود گرامی سے زیادہ نہ تھی، دو ایک اجلاس بھی ہوئے۔ پھر وہ اپنا وجود بھی برقرار نہ رکھ سکی۔ اس کے بعد اس پر جمعیت علمائے ہند کے سیاسی فلسفے پر یقین رکھنے والوں کا قبضہ ہو گیا اور آج مسلم لیگ کی حلیف جمعیت علمائے اسلام کا کوئی نشان باقی نہیں رہا‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ