قابل فخر سپاہی۔ جنرل حمید گل۔۔۔۔شکیل احمد ترابی


سال1991 ء کے اس روشن دن کی یادیں میری نظروں میں اسں طرح تازہ ہیں جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔
میرپور میں اپنے اخباری دفتر کے افتتاح کے لئے میں اس روش پیشانی و قلب و نظر رکھنے والے جنرل سے وقت لینے راولپنڈی کے ویسٹریج کے اس کرائے کے گھر پہنچاتھا جہاں بعد از ریٹائرمنٹ وہ رہائش پذیر تھے۔
نہ جان نہ پہچان بس اتنی عرض کی کے میرپور آزاد کشمیر سے فلاں مقصد کے لئے حاضر ہواہوں۔ ایسے تپاک سے ملے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔
کشمیر کانام سنتے ہی روش چہرہ مزید جگمگھا اٹھا۔
کشمیر سے متعلق اقبال کے اشعار پڑھنے کے بعد کہا بانی پاکستان نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیاتھا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کشمیر میری اپنی بھی شہ رگ ہے۔
جنرل صاحب کی گفتگو کے دوران میری نظر اس طغرے( دیوار برلن کے ٹکڑے) پر پڑھی جوجرمنی کی حکومت کے اعلی عہدیدارنے اس نوٹ کے ساتھ بھیجاتھا کہ

Bundes Naerishten Dienst  “With Deepest Respect To Lt. General Hamid Gul Who Helped Deliver The First Blow.
جرمنوں کے مغائر اپنے بعض محسن کش آج اس عظیم سپاہی سے متعلق لایعنی مباحث چھیڑ رہے ہیں۔ معروف صحافی نجم سیٹھی نے اپنے کالم میں فرمایا کہ حمید گل کی فکر کے نتیجے میں دہشت گردی کو فروغ ملا، اسی کالم میں موصوف فرماتے ہیں کہ گل کی پھیلائی دہشت گردی کے ناسور کو جنرل راحیل جرات مندی سے نیست ونابود کررہے ہیں۔
موصوف کی کم علمی یا یاوہ گوئی پر ماتم کرنے کو جی چاہتاہے، پچھلے عرصے میں فوج کے جرنیل و دیگر اعلی رینکس کے آفیسران نے جہان فانی سے کوچ کیا مگر فوج کے سپہ سالار بہت سوں کے جنازوں میں شریک نہ ہوسکے۔
جنرل راحیل کی جنرل گل کے جنازے میں شرکت ان قوتوں کے لئے واضح پیغام تھا کہ کشمیر اور دیگر قومی معاملات پر گل کا موقف درحقیقت پاک فوج کا موقف ہے۔
جنرل گل کشمیر کی تحریک کے فکری راہبرتھے، اسی بنا پر قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی کی اپیل پر مقبوضہ وادی میں درجنوں مقامات پر عظیم سپاہی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔
کم بختوں کو دانش بھگارتے ہوئے زرا شرم نہیں آتی کے مرحوم جنرل اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کس طرح بزدل مودی کی بھڑکوں کا جواب جرات مندی سے دیتے رہے،قوم کو معلوم ہے کہ گل کی فکر پاکستان کے تمام غیرت مند عساکر کی فکر ہے۔
اسی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے جنرل کی وفات کے چند دن بعد پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے بھارت کو کشمیر سے متعلق واضح جواب دیا ہے اور بزدل مشرف کے دور کی کشمیریوں کے دلوں میں موجود مایوسی چند دنوں میں ختم کرنے کے لئے ” اسلام آباد ” نے واضح پیغامات دئیے ہیں۔
کچھ حلقے جناب گل پر یہ الزام بھی دھرتے ہیں کہ آئی جے آئی انھوں نے بنائی، اس سے متعلق انھوں نے بارہا وضاحت کی کہ کِس کے حکم پر اور کیوں انھوں نے ایسا کیا۔ وہ واضح طور پر کہتے تھے کہ اگر میں نے کوئی جرم کیا ہے تو مجھے پاکستان کے قانون کے مطابق ٹرائل کیاجائے۔
بعض لوگ جلال آباد آپریشن کی وجہ سے انھیں ناکام جنرل کے طور پر گردانتے ہیں ۔ قانون الہی تو اس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارا رب تو ہم سے کوششوں سے متعلق سوال کریگا نہ کے کامیابی و ناکامی سے متعلق۔
کامیابی کے لئے گھلنے سے تو ہمارے رب نے ہمارے پیارے پیغمبر ۖکو منع فرمایا تو پھر ہم کسی ایک معرکے سے ناکامی پر کسی کو ناکام فرد کیسے قرار دیتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر جنرل صاحب سے متعلق میری پوسٹس پر پیپلزپارٹی کی ایک قابل احترام و شائستہ اطوار سینیٹر صاحبہ کے خیالات جان کر مجھے حیرت ہوئی جو یہ سمجھتی ہیں کے طالبان کے بانی جنرل حمید گل ہیں۔ ہماری بات پر محترمہ کو شاید یقین نہ آئے مگرجناب حامد میر انتہائی باخبر صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کے بہت قریب سمجھے جانے والے چند صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ جناب میر متعددبار شواہد کے ساتھ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ طالبان کے بانی محترمہ بینظیر کے قابل اعتماد جرنیل نصیر اللہ بابر تھے۔ بھارتی پروپیگنڈہ مشینری کی مانند سینیٹر صاحبہ یہ بھی سمجھتی ہیں کے انتہاہ پسندی کو فکری غذا فراہم کرنے والوں میں جنرل گل سر فہرست تھے ۔ سینیٹر صاحبہ سے میں نے عرض کی کے آپ کی بات اگر درست ہے تو جنرل حمید گل کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں آئی اس کی حکومت نے جنرل پر پاکستانی قوانین کے مطابق کارروائی کیوں نہ کی تو محترمہ نے ناقابل فہم جواب دیاکے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے جنگ آسان بات نہیں۔ خاتون مذکور شاید تجاہل عارفانہ کا اظہار کرکے یہ بھی کہتی ہیں کے افغان مجاہدین حکمت یار اور ربانی وغیرہ کو ضیا و جنرل گل نے پاکستان بلایا تھا حالانکہ یہ حقیقت کس سے پوشیدہ ہے کہ افغان رہنما داود کے دور میں پیپلز پارٹی کے بانی قائد و وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو نے درست اقدام کے طور پر مذکورہ بالا افغان قیادت کو نہ صرف پاکستان بلایا تھا بلکہ انہیں درکار کمک بھی مہیا کی تھی۔
جنرل حمیدگل خوبصورت اننگز کھیل کر اپنے رب کے ہاں پہنچ چکے جہاں حقیقی کامیابی و ناکامی کے فیصلے ہماری فرد عمل کی روشنی میں ہوناہیں۔
میرے کانوں میں جنرل صاحب کے وہ جملے گونج رہے ہیں کہ شکیل جدوجہد ترک نہیں کرنی،تم ( میری عظیم مربی ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنائیت سے تم کہتے تھے) زرائع ابلاغ کے اہم محاز پر ہو کشمیر نے آزاد ہوکے رہنا ہے۔ مورچہ نہ چھوڑنا۔
یقین کی دولت سے مالا مال قائد کے الفاظ پردہِ سماعت سے ٹکرا رہے ہیں۔
وہ الفاظ چباتے تھے نہ ہی دنیاوی خداؤں کے ڈر سے انھوں کبھی اپنی کہی بات کی تردید کی تھی۔
رب کے فیصلوں کے سامنے کس کو مفر ہے مگر اب ایسا جری ہمیں کہاں سے ملے گا؟
آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ۔ عظمی باجی عمر اور عبداللہ تم ہی آج یتیم نہیں ہوئے شکیل کی طرح کے لاکھوں لوگ آج یتیم ہوگئے۔
یا اللہ اس کو بخش اور رحم کر اور اسے عافیت عطا فرما اور اسے معاف فرما اور اس کے اترنے کو مکرم بنادے اور اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے پانی برف اور اولوں سے دھو دے اور اس کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور اسے کے گھر کے بدلے بہتر گھر عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر سے بچا اور جہنم کے عذاب سے بچا
اِنا لِلہِ واِنا ِلیہِ راجِعون۔
میں پوری دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کے ہمارا رب ان سے نفس مطمئنہ کے حامل افراد کا سا معاملہ کرے گا۔
اللہ نے ایسے لوگوں سے متعلق ہی تو سور الفجر میں کہا ہے کہ:
” اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف پلٹ آ۔ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔”