خورشید جو غروب نہ ہوگا …تحریر: محمود احمد

 عرب ریاست قطرمیں کچھ خوشگوار خبرکامنتظرتھاکہ برادر سعودتابش نے مقامی وقت کے مطابق 17-52پراطلاع دی کہ پروفیسرخورشید مالک حقیقی سے جاملے۔ ہر خبرخوش آئندنہیں ہوتی ہے سو یہ بھی سنناپڑا۔
خورشید صاحب ان تین اعلیٰ تعلیم یافتہ اسلامی اسکالرزمیں دنیاکوداغ مفارقت دینے والے مسلم دانشوراورمحققین میں سے آخری تھے ۔ ان تینوں کی پیدائش جو1932کہ ہے۔ سب سے پہلے روانہ ہونے والے نائب امیرجماعت اسلامی خرّم مراد 1996میں،دوسرے ڈاکٹر اسرار 2011میں اور یہ خورشیدصاحب آج 13دسمبر2025 کوراہیئ ملک عدم ہوئے۔اتفاق سے یہ تینوں مختلف ادوارمیں اسلامی جمیعت طلبا کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ خرم مراد1951میں اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے۔1952میں نطامت اسرارصاحب کے حصّے میں آئی۔اس کے بعد خورشیدصاحب ناظم منتخب ہوئے،ان کی نظامت کاعرصہ دوسال کاتھا۔
دماغ پربہت زوردینے پریاد آیاکہ ان کا نام اگست1969میں سناجب جامعہ کراچی کے آنرزپروگرام میں داخلہ لیا۔ ایک مضمون تھا ’اسلامی نظریہ حیات‘۔ اس کی کتاب ان کی مرتب کردہ تھی۔ بڑی ضخیم کتاب تھی۔ اس کے چنددنوں بعد اپنے دوست افضال محسن نے ان کی تحریرکردہ کتاب ’تذکرہ زنداں‘ مطالعہ کے لیے دی۔ یہ کتاب جنوری 1964میں اسیری کی رودادتھی جس کاایوبی دورمیں سامنا کرناپڑاتھا،
یہ اسیری نوماہ اور چنددنوں کی تھی۔ جماعت اسلامی پرپابندی لگادی گئی اور مجلس شوریٰ کے پچاس ارکان کوگرفتار کیاگیا۔ شروع میں کچھ دن کراچی میں گزارے پھر حکومت کے مقررکردہ ایک ٹریبیونل کے سامنے پیشی پرتمام گرفتارشدگان کولاہورمنتقل کیاگیا۔ کراچی میں ان دنوں چھ ارکان مرکزی شوریٰ تھے۔ خورشیدصاحب، پروفیسرغفورصاحب، حکیم اقبال حسین، گوہرعلی شاہ گیلانی، صادق حسین صاحب اور ناظم کراچی جماعت چودھری غلام محمدصاحب۔
خورشیدصاحب اس دنوں جامعہ کراچی کے اساتذہ میں تھے۔ وہ لکھتے ہیں اس وقت کے وزراکے بیانات سے لگ رہاتھا کہ جماعت پرکوئی افتادآنے والی ہے۔سوچھ جنوری کویہ اعلان ہوگیا۔ سینٹرل جیل کراچی میں گرفتارشدگان کولایاجارہاتھا۔ خورشید صاحب لکھتے ہیں کہ اس دن صدرشعبہ نے طلب کیااورکہا کئی ٹیلیفون آرہے ہیں جس سے لگ رہاتھا کہ کوئی بڑاواقعہ ہونے کوہے۔ خورشیدصاحب اس کے لیے تیارتھے صرف اتنی احتیاط برتی کہ شعبے کی میٹنگ کی روداد جو وہ تحریرکرتے تھے کسی دوسرے کے ذمہ کی۔ اسی دوران ان کے بھائی (شایدانیس)کا فون آیاکہ جماعت پرپابندی لگادی گئی ہے۔دفترسر بمہرکردیاگیاہے۔مولانامودودی اور کئی اکابرین گرفتار کرلیے گئے ہیں خورشیدصاحب اس کے لیے تیار بیٹھے تھے ع ہورہے گاکچھ گھبرائیں کیا
دوپہرمیں ایک پولیس آفیسر شعبے میں آیا،سلام دعاکے بعد فرمایا”You are under detention”انہوں نے جواب دیا ”With all pleasure“۔ اس کے بعد جامعہ کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔صدر شعبہ شاید قاضی فریدتھے (غلطی کاامکان ہے)۔ قاضی صاحب کی رہائش پرگئے جوکہ آج کے نشترپارک کے قریب تھی۔وہاں کھاناکھایا۔ پھرپولیس کی گاڑی میں بیٹھ کرگھرکی راہ لی تاکہ کچھ سامان لے کر جیل کارخ کریں۔ ان کامکان شاید ناظم آبادمیں تھا۔تین ہٹی کے قریب پولیس آفیسرنے کہا بہت دیرہوگئی ہے۔ اس پرانہوں نے کہا کہ گھرکاجانا چھوڑیں اس پرگاڑی تین ہٹی سے جیل کی طرف موڑدی گئی۔ جیل کے اندر کچھ ساتھی پہلے سے موجودتھے۔
ٹریبیونل کے سامنے اپنے دفاع میں خورشیدصاحب نے کئی اہم نکات بیان کیے (شایدچھ تھے جن کی بناپر ثابت ہوتاتھا کہ یہ مقدمہ بدنیتی کی بنیادپرقائم ہواہے (Malafide Intentions)۔ایک بات یادرہ گئی ہے کہ جماعت کوچھ جنوری کوخلاف قانون قرار دیاگیاہے، لیکن ان کے وارنٹ پرچار جنوری کی تاریخ درج ہے۔ اس دن تو قانونی جماعت تھی۔ اس دن ان کی گرفتاری کاحکم اس بنیادپرکیسے دیا جاسکتاہے۔ کچھ اور نکات تھے اچھی طرح یادنہیں ہیں۔شایدایک یہ بھی تھاکہ گرفتاری کاحکم مغربی پاکستان کے چیف سکریٹری کی طرف سے تھا۔حکومت نے اس ٹریبیونل میں انہیں بھی شامل کیاتھا۔یعنی جس نے گرفتار کیاوہی انصاف کی کرسی پربراجمان ہے ع
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی…….کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ٹریبیونل میں ان کے دفاع کوسن کرایک صاحب بول پڑے۔ وہ لاجواب دفاع تھا۔دوسرے ممبرنے بھی ان کی تائیدکی۔ عدالت کے باہر کھڑے پولیس والوں نے کہا:”یہ جامعہ میں کیاکررہاہے،وکالت کرے تولاکھوں کمائے گا“۔ خورشید حاحب کاکہناتھاکہ وہ لوگ لاکھوں تک ہی سوچ سکتے ہیں۔ انہیں کیامعلوم کہ ہم کتنااہم کام کررہے ہیں۔
ایک مضمون میں انہوں نے لکھاکہ لیبیاکی حکومت کی طرف سے ان کووزارت خزانہ کی پیشکش ہہوئی تھی۔شہریت اور تمام سہولتوں کے ساتھ لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔
اسلامی جمیعت طلبامیں تینوں ایک ساتھ تھے،یعنی خرم مراد صاحب، ڈاکٹراسرار اور خورشید صاحب۔ ڈاکٹرصاحب دوسری بار ناظم منتخب نہ ہوسکے توانہوں نے پوراالزام جمیعت کی تگدم (خرم صاحب،خورشیدصاحب اور ظفراسحٰق انصاری)نے انہیں منتخب نہیں ہونے دیا۔ اس کاجواب خرم مرادصاحب نے اپنی سوانح ’لمحات‘میں دیاہے۔ خورشیدصاحب نے اس پرلب کشائی نہیں کی بلکہ ڈاکٹرصاحب کے انتقال پرتعزیتی مضمون تحریرکیا۔انہیں اسرار بھائی کے طور پریادکیا۔ ان کی خوبیوں کا ذکرکیا۔
غالباً غفورصاحب کی نمازجنازہ پردیکھاتھا دو احباب سہارادے کر لائے تھے۔ دیسے ان سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی
آسماں تیری لحدپرشبنم افشانی کرے
(اپنے دوست عطاتبسم سے معذرت کے ساتھ ان کی پوسٹ میں غلطی کی نشاندہی کی تھی اس پران کاکہناتھاکہ وکی پیڈیاسے لی گئی تفصیل تھی)