جنرل پرویز مشرف صدرِ پاکستان اور شوکت عزیز ان کے وزیر خزانہ تھے۔ آزاد کشمیر سے ھم چند آفیسران ایک تربیتی کورس کیلئے ٹرینگ کالج لاہور گئے ہوئے تھے۔اس کورس کے شرکاء کو لیکچر دینے کیلئے ملک کے نامور لوگ وہاں آتے تھے جس میں سرکاری اور غیرسرکاری لوگ بھی شامل ہوتے تھے۔ جو ملکی مسائل پر لیکچر دیتے تھے اور ان کے لیکچر کے بعد شرکاء کورس کو سوالات کا آزادانہ موقع دیا جاتا تھا۔ ایک روز ملکی معیشت اور غیرملکی تجارت کے موضوع پر لیکچر دینے کیلئے وزیر خزانہ شوکت عزیز اور ملک کے ایک نامور صنعت کار پر مشتمل پینل آیا ہوا تھا۔انہوں نے متعلقہ موضوع پر بہت تفصیل سے لیکچر دیئے اور پھر وقفہ سوالات شروع ہو گیا۔۔ان دنوں ادویات مافیا بہت سرگرم تھا اور ملک میں ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کر کے انہیں مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا تھا اور ایسی خبریں روز اخبارات میں چھپ رہی تھیں کہ جان بچانے والی ادویات غریب لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں اور روزانہ سینکڑوں لوگ علاج معالجہ کیلئے سکت نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں ۔ ان دنوں بھارت میں ادویات کی قیمتیں پاکستان میں جاری قیمتوں سے بہت کم تھیں اور یہ بھی مصدقہ اطلاعات تھیں کہ بھارت میں تیار کردہ ادویات کی پاکستان میں درآ مد پر پابندی ہے لیکن یہی بھارتی ادویات دبئی کے راست پاکستان آتی ہیں اور تجارتی مافیہ ان پر خوب منافع کماتا ہے۔۔ملک کے اندر ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں بھی بھارت سے واہگہ کے راستے سستی ادویات خریدنے کے خلاف تھیں کی ادویات کی قلت سے ملک کے اندر من مانے انرخ پر ادویات بیچ کر خوب منافع کمایا جا ریا تھا۔اور اگر کوئی یی ادویات واہگی کے راستے منگوانے کی بات کرتا تو اسے فوری بھاتی ایجنٹ کا طوق پہنا دیا جاتا۔اس پس منظر میں، میں نے کلاس میں قابلِ احترام سپیکرز سے یہ سوال کیا کہ بھارتی ادویات دوبئی کے راستے پاکستان آ رہی ہیں جو کئی گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہیں اگر براہ راست واہگہ کے راستے درآمد ہونا شروع ہو جائیں تو پاکستان کے چالیس فیصد لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کی قید کاٹ رہے ہیں انہیں بھی دوائی چکھنے کی سہولت مل جائے گی۔ اس پر دونوں مہمان شرکاء کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ پیارا ہے یا یہ عارضی جان جس نے ایک نہ ایک روز یہاں سے جانا ہی ہے،اسے دوائی ملے یا نہ ملے۔ سپیکرز کے اس جواب پر میں نے انہیں احمد فراز کا یہ شعر سنا کر اپنی بات ختم کر دی۔ امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا یے ۔ کبھی بحیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن ۔ آج کل بھی ملک میں شدید ترین سیلاب آ یا ہوا ہے۔انسانی زندگیوں کے بعد سب سے زیادہ نقصان زرعی پیداورا کو ہوا ہے۔ ٹماٹر اور پیاز تک افغانستان سے منگوایا جا رہا ہے جو یہاں سے ہی افغانستان بھجی گئی تھیں۔پاکستان میں اشیاء خاص طور پر اشیاء خوردنی نہ صرف مہنگی ہو رہی ہیں بلکہ نایاب بھی ہو رہی ہیں۔ یہی اشیاء بھارت سے دبئی کے راستے پاکستان آ رہی ہیں لیکن بھارت سے واہگہ کے راستے منگوانے کی بات کرنا غداری کے فتوے کو دعوت دینے سے کم نہیں۔ واہگہ سےآنے والے سستے پیاز اور ٹماٹر ہندو بن حرام ہو جاتے ہیں اور دو قومی نظریہ کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن وہی پیاز ٹماٹر اگر دبئی کے راستے پاکستان آئیں اور منافع خور لٹیرے انہیں چار گنا زیادہ قیمت پر پاکستانیوں کو بیچیں تو وہ نہ صرف حلال ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے نظریہ پاکستان بھی محفوظ رہتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ہی گراونڈ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کرکٹ کا حلال میچ ہو سکتا ہے اور دوقومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور یہ نظریات بالکل محفوظ رہتے ہیں تو پاکستان کے سیلاب میں براہِ راست ڈوبے چار کروڑ انسانوں اور مہنگائی میں پستے بیس کروڑ لوگوں کیلئے پڑوس سے دبئی کے بجائے براہِ راست ٹماٹر اور پیاز منگوانے پران ٹماٹروں یا پیاز سے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کو قطعاََ کوئی خطرہ نہیں پہنچے گا البتہ ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء مہنگی کر کے بیچنے والے لٹیروں کے نظریات اور مفادات کو شدید نقصان ضرور پہنچے گا۔جسے آجکل نظریہ پاکستان کے نعرے کے پیچھے چھپایا جاتا ہے۔