اب جب سارے زمینداروں، سرداروں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچالی ہیں۔ اب تو بزدار صاحب ڈی۔ جی خان کو دیکھو۔ یوسف رضا گیلانی اپنی اولاد اور قریشی صاحب بھی اپنی اولاد کو اسمبلیوں میں نشستیں دلوا کر فارغ ہوگئے ہوں گے تو اب ذرا ان غریب عوام کی طرف خود اورا پنے چہیتوں کولے جاکر بھوکے، بے آسرا، لوگوں کی خبر لیں۔ مریم بی بی! آپ نے 24دن بعد کہا ہے میں خود نکلوں گی۔ بدین تو بالکل اجڑ گیا۔ کہاں ہیں فہمیدہ مرزا؟ کہاں ہیں میرے بلوچ جوان جو آزادی مانگتے تھے؟وہ اب توآگے آکرنیا بلوچستان بنا کر بتائیں کہ آپ کس قدر بلوچ اور کتنے پرخلوص ہو؟ یہ کون سی سرکار نے علی وزیر کو اندر رکھا ہوا ہے، اس کو کہیں باہر آئے اور محسن داوڑ کے ساتھ سارے انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو گھٹنوں گھٹنوں پانی میں اتر کر کم از کم لاشوں کو ہی دفنانے کا اہتمام کریں جو خواتین میک اپ کرکے جلسوں میں آتی ہیں وہ عمران خان کو لے کر چلیں اوربلوچستان کو دوبارہ آباد کریں۔ کہاں ہیں پارلیمان کے سارے ارکان، ہر روز ٹی وی اسکرین پر ایک سجی سجائی لڑکی، حکومت بلوچستان کی ترجمان بن کر بولنے لگتی ہے۔ کہاں ہیں خورشید شاہ صاحب سکھر کے بھی سارے اضلاع ڈوب گئے ہیں۔ آپ کا فارم ہاؤس تو شاید بچ گیا ہوگا؟ کس نے کہا تھا کہ شرجیل میمن کو بیان بازی میں سامنے لائیں۔ کام بھی تو کریں۔ یہ کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف والے، اپنے ساتھیوں کو لے کر بھوکے پیاسے لوگوں کی خبر لیں۔
اِدھر پنجاب میں کہنے کو ق لیگ کی حکومت ہے، مگر سارے وزیر توتحریک انصاف کے ہیں۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے والے اور یہ سارے وزیر چھپے کیوں بیٹھے ہیں۔ کپتان صاحب کی بہت پہنچ ہے۔ آپ اسپتال کے لئے اسکولوں، کالجوں کے بچوں سے پیسے لیتے رہے ہیں۔ اب دنیا بھر میں آپ اپنے بلوچستان کی دہائی دیں۔ اُن سے فنڈ مانگیں۔
عمران خان! ساڑھے تین سال کے دھبے دھونے کے لئے اپنے جانثاروں، اپنی ٹائیگر فورس کو سامنے لائیں۔ بلاول میاں! آپ شاید ایک دو جگہ جا سکتے ہیں۔ پوری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے سارے حواریوں کےساتھ ایک بار تو ملک سے محبت کا عملی مظاہرہ کرکے ڈوبتے پاکستان کو بچائے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ فنڈنگ ایجنسیز کی میٹنگ عالمی سطح پر بلائیں گے۔ یہ بات تو پہلے ہفتے کے بعد اور محکمۂ موسمیات سے موسم کی اَپ ڈیٹ پوچھ کر کرسکتے تھے۔ اب سارے علاقوں کے بے چارے رپورٹرز بتا رہے ہیں کہ فوج 5ہزار لوگوں کے لئے کھانے کا بندوبست کررہی ہے مگر ہر جگہ لاکھوں بچے، عورتیں زمین پر بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔ کچھ ادارے کہہ رہے ہیں ابھی ذرا پانی اترے، ہم پھر جائیں گے۔ ارے ایران سے لے کر ساری دنیا سے ہیلی کاپٹرز مانگو۔ جاؤ لوگ مر رہے ہیں۔
اب یہ بھی اطلاعات دی جارہی ہیں کہ پانی جو سب علاقوں میں گھروں اور گوداموں میں پہنچ چکا ہے، ہم پھر گندم مانگنے، دالیں مانگنے کی طرف نکلیں گے ۔ مجھے تو ساری دنیا کے رفاہی ادارں پر غصہ آرہا ہے۔ ان سب سے بہتر تو امریکی اداکارہ انجلینا جولی تھی جو پانی میں بیٹھ کر لوگوں کی حالت سنوارتی رہی۔ یہ الگ بات کہ اس کے ساتھ وزیراعظم کے خاندان نے تصویریں اتروا کراپنا گھر سجایا۔
اب بازی سب کے ہاتھ سے نکلی جارہی ہے۔ سب لوگ غلطیوں پر غلطیاں کئے جارہے ہیں۔ وزیر داخلہ کو تو اپنے بدلے لینے ہیں۔ ملک کےدوسرے معاملات قوم جانے اور دیگر سیاست دان (اگر سیاست دان ہیں) ذاتی سطح پر لاہور کےفاروق طارق نے جگہ جگہ جا کر فنڈز اکٹھے کرنے شروع کئے ہیں مگر کیا کہا جائے، ان حالات میں بھی کوئی جگہ سیلاب سے خالی نہ ملی تو جاکے ہری پور میں خان صاحب نے جلسہ کرلیا۔ کیا انہیں کوئی سمجھا نہیں سکتا کہ یہ وقت جلسے کرنے کا نہیں، سیلاب میں اجڑے لوگوں کو پناہ دینا، کھانا اور سر چھپانے کو جگہ دینے کا ہے۔
یہ وقت سب کے مل کر سوچنے کا ہے کہ اتنی بڑی بربادی سے نمٹنا کیسے ہے؟ یاد کریں کہ 2005ءکے زلزلے میں عالمی اداروں نے 20ارب ڈالر دیے تھے۔ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا، سڑکوں پہ امدادی سامان فروخت ہو رہا تھا۔ دکانوں پر دودھ اور جوس کے ڈبے فروخت ہورہے تھے۔ جیسے چین سی پیک کے سلسلے میں ہمارے کرتوتوں سے آگاہ ہوچکا ہے اس طرح دنیا کے لوگ کب تک ہماری بے ایمانیوں پر پردہ ڈالتے رہیں گے، ہم نے اب نہیں سنا کہ نواز شریف کب واپس آرہے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں سننا کہ الیکشن کب ہوں گے؟ یہ سب فالتو لوگوں کی باتیں ہیں۔ اس وقت پورا ملک بربادی اور عوام بھوک اور موت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ٹنڈو الہ یار سے فون آیا ، ’’نہ بازار ہے، نہ سبزی نہ چولہا جلانے کی جگہ، ہم گھروں میں قید ہیں۔ آپ لوگ کچھ کریں‘‘۔ پاکستان کے لوگ، ان کی جانب دیکھ رہے ہیں جو سیلاب سے محفوظ ہیں۔ انہیں اگر اب بھی جلسے یاد ہیں تو پھر یہ قوم ان کو کس نام سے یاد کرے گی۔ یہ نقصان ہفتوں، دنوں اور مہینوں میں ختم ہونے والا نہیں۔ جہاں ایک درخت یا چھت یا ڈیم یا گھر نہ ہوں۔ ہمارے سارے کھیتوں میں کب فصلیں لہلہائیں گی ؟ خدا کے لئے سیاست کا رُخ اس طرف موڑ دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ