عمران خان اپنا بیان واپس لیں۔۔۔تحریر انصار عباسی


عمران خان نے بہت مایوس کیا۔ ملعون سلمان رشدی پر حملے کو انہوں نے Sad (افسوسناک) اور Terrible (ہولناک) کہا۔ برطانوی اخبار گارڈین کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے جو بات کی، اسے پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔

عمران خان نے اپنی وضاحت میں کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا۔ اپنی وضاحت میں جو وہ کہہ رہے ہیں اس میں وہ اس بات کی تردید نہیں کر رہے کہ انہوں نے ملعون پر حملے کو افسوسناک اور ہولناک قرار نہیں دیا۔ برطانوی اخبار گارڈین میں عمران خان کا یہ انٹرویو شائع ہوا۔

عمران خان کی طرف سے اخبار کو نہ کوئی تردید اور نہ ہی کوئی وضاحت بھیجے جانے کی اطلاع ہے نہ ہی ایسا کچھ اخبار میں سرِدست شائع ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس اخبار کے نمائندے کے مطابق، عمران خان کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے شائع کیا، وہ اس پر قائم ہیں۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان شائع کرنے کے دعوے کو بھی اخبار کے نمائندے نے رد کیا۔

عمران خان کا ملعون پر حملے کا سیالکوٹ واقعہ سے موازنہ کرنا بھی درست نہیں کیوں کہ ملعون سلمان رشدی نے جو گستاخی کی، وہ کتابی صورت میں دنیا کے سامنے موجود ہے جبکہ سیالکوٹ واقعہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ عمران خان کے بیان نے بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

عالمی مجلس تحفظ ختم بنوت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملعون سلمان رشدی دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا مجرم ہے، عمران خان کا اس ملعون کے حق میں بیان دینا قابلِ مذمت اور قابلِ تشویش ہے۔ مجلسِ تحفظ ختم نبوت نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان نے یہ بیان مغرب کو خوش کرنے کے لئے دیا۔

مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ عمران خان تو توہین رسالتۖ ایسے گستاخانہ عمل کی دنیا بھر میں مخالفت کرتے رہے اور اپنے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر دنیا کو یہ باو ر کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ آزادی رائے کے نام پر مغربی دنیا میں اسلام مخالف گستاخانہ عمل کی اجازت اور اس کا دفاع کرنا کسی طور بھی جائز نہیں اور مسلمانوں کے لئے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ ایسے گستاخانہ عمل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات مجروع ہوتے ہیں اور ان کا دل دکھتا ہے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ عمران خان نے ملعون رشدی پر حملے کو افسوس ناک اور ہولناک قرار دے ڈالا۔

عمران خان اور ان کی اندھی تقلید کرنے والوں کو میں یہاں یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ 2015میں جب فرانس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین چارلی ایبڈو پر حملہ کر کے اس کے بارہ ملازمین کو مارا گیا تو مغربی دنیا نے اسے آزادی رائے پر حملہ قرار دیا لیکن جب اس وقت مسیحی مذہب کے سب سے بڑے مذہبی رہنما پوپ فرانسس سے اس حملے پر رائے لی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی میری ماں کو برا بھلا کہے گا تو میں اس کو گھونسا رسید کروں گا۔

پوپ نے کہا کہ وہ مذہب کے نام پر تشدد کے حق میں نہیں لیکن آزادی اظہارِ رائے کے نام پر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔

مغرب میں آزادی اظہارِ رائے کے نام پر گستاخانہ عمل کرنے والوں کا فرانس حملے کے بعد بھی اگر مسیحی مذہب کے سب سے بڑے مذہبی رہنمانے دفاع نہیں کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ کوئی اگرمیری ماں کو برا بھلا کہے گا تو جواب میں اسیگھونسا رسید کروں گا تو عمران خان کو ملعون رشدی پر حملے کی کسی طور پر مذمت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ملعون پر حملے کے واقعہ پر وزیراعلی پنجاب پرویز الہی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملعون کے ساتھ جو ہوا، وہ اس کے اس گستاخانہ عمل کا نتیجہ ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔

پنجاب اسمبلی میں عمران خان کے اس بیان کے خلاف قررداد بھی جمع کروا دی گئی ہے۔

مجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ عمران خان کے بیان پر تحریک انصاف کے اپنے کئی لوگ خفا ہیں، مسلم لیگ ق بھی اس پر ناراض ہے اور ق لیگ کے ایک رکن پنجاب اسمبلی حافظ عمار یاسر نے عمران خان سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور تشویش کا اظہار کیاہے کہ یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب عالم اسلام میں ملعون رشدی کے بارے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

عمار یاسر نے یہ بھی کہا کہ ملعون کے ساتھ ایسی کیا ہمدردی ہو سکتی ہے کہ اس قسم کا متنازعہ بیان دینے کی ضرورت پڑی۔رکن صوبائی اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ میرا بھی عمران خان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ ملعون کے حق میں دیا گیا اپنا یہ بیان واپس لیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ