اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اپنے مقدمے کی جلد سماعت کے لئے چھٹی متفرق درخواست دائر کردی۔
واضح رہے کہ راولپنڈی بار سے تقریرکے دوران حساس اداررے پرتنقید کرنے کے الزام پرجسٹس شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارش کی تھی جس پر صدرکی منظوری کے بعد ان کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا، جسٹس شوکت صدیقی نے اس نوٹیفیکیشن کو چیلنج کررکھا ہے
جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے برطرفی فیصلے کو آئین کے آرٹیکل184تین کے تحت چیلنج کررکھا ہے اور ان کا مقدمہ اڑھائی سال سے زیر التوا ہے۔ ان کے مقدمہ کی سماعت 26مئی کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کرنا تھی لیکن بینچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کیس ڈی لسٹ کردیا گیا۔جس کی وجہ سے انہیں ایک بار پھرجلد سماعت کی درکواست دائر کرنا پڑی ہے۔
اس سے قبل بھی جسٹس شوکت صدیقی پانچ بار جلد کی درخواستیں دائر کرچکے ہیں تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر کیس التوا کا شکار رہا ،
پیراگراف نمبرایک
جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے دائرتین صفحات، دس پیراگرافس پر مشتمل متفرق درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ان کی درخواست 2018 سے زیرالتوا ہے۔ درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات اور اس کے نتیجے میں صدر مملکت کی جانب سے گیارہ اکتوبر 2018 کو وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا گیا ہے۔درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو غیرقانونی اور غیرآئینی طریقے سے ہٹایا گیا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
پیراگراف نمبر دو
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ 2018 سے میرے مقدمے کی مناسب سماعت نہیں ہو سکی صرف جنوری 2021 میں دو سال بعد نوٹس جاری کئے گئے۔ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ معاملہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوا۔ پہلے اس پر عدالتی دفتر کی طرف سے بے بنیاد اعتراضات لگائے گئے جن کے خلاف اپیل لاجر بینچ نے سنی اور فاضل لارجر بینچ نے پچیس مارچ 2019 کو درخواست منظور کر کے دفتر کو ہدایت کی کہ اس درخواست کو نمبر لگایا جائے اوریہ معاملہ تین رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔
پیراگراف نمبرتین
شوکت صدیقی نے موقف اپنایاتھاکہ واضح عدالتی حکم کے باوجود گیارہ ماہ بعدجلد سماعت کی درخواست پرکیس 13 فروری 2020 کو سماعت کے لئے مقرر کیاگیا۔ اس تاریخ پر عدالت نے کیس مارچ 2020 کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کیا۔
پیراگراف نمبرچار
اس کے بعد عدالتی دفتر نے دوبارہ یہ کیس سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا جس کی وجہ سے درخواست گزار کو دوبارہ جلد سماعت کی درخواست دائر کرنا پڑی تو کیس 24 ستمبر 2020 کو سماعت کے لئے مقرر ہوا۔
پیراگراف نمبرپانچ
فاضل بینچ کی طرف سے 24 ستمبر 2020 کو کیس ایک بار پھر ملتوی کر دیا گیا اور دفتر کو ہدایت کی گئی کہ ایک ماہ کے اندر کیس سماعت کے لئے مقرر کیا جائے لیکن بینچ کے حکم کے باوجود کیس سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے درخواست گزار نے مجبورا چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا کہ ان کا مقدمہ سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس خط کا نوٹس لے کر 9 دسمبر 2020 کو سماعت کے لئے مقرر کیا۔ اس سماعت پر بھی بینچ نے بار کونسلز کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے دفتر کو ہدایت کی کہ یہ کیس جنوری 2021 میں مقرر کیا جائے۔
پیراگراف نمبرچھ
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان کا کیس 28 جنوری 2021 کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا لیکن فاضل بینچ نے کیس ایک بار پھر ملتوی کرتے ہوئے زبانی آبزرویشن دی کہ کیس فروری کے مہینے میں سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا۔لیکن 28جنوری کے تحریری حکم میں عدالت نے لکھا کہ مقدمہ جلد سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا،درخواست گزار نے بائیس فروری کوجلد سماعت کی درخواست کے ساتھ چیف جسٹس کو دوسرا خط لکھ کر استدعا کی کہ کیس جلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔
پیراگراف نمبرسات
اپنی اس درخواست جسٹس شوکت صدیقی نے موقف اپنایاہے کہ انہوں نے 6اپریل2021کوعبوری ریلیف اورجلدسماعت کی درخواست دائر کی تھی لیکن وہ اس وجہ سے مقرر نہیں کی گئی کہ بینچ کے ارکان فل کورٹ کی سماعت میں مصروف ہیں ، فل کورٹ کی سماعت 26اپریل کو مکمل ہوچکی ہے ۔
پیراگراف نمبرآٹھ
جسٹس شوکت صدیقی نے لکھا ہے کہ انہوں نے 28اپریل 2021کوکیس کی جلد سماعت کیلئے پانچویں درخواست دائر کی اور کیس17مئی کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیالیکن بدقسمتی سے کیس کو ڈی لسٹ کرکے 26مئی کے سماعت مقررکی گئی اور حیران کن طور پر 26مئی کی سماعت سے کچھ گھنٹے قبل بغیر وجہ بتائے سماعت ملتوی کردی گئی۔
پیراگراف نمبر9
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ درخواست گزار عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ابھی تک بے روزگار ہیں۔ درخواست گزار کے دیگر سیکڑوں شہریوں کی طرح بنیادی حقوق آئین میں دیئے گئے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے موقف اپنایا کہ یہ عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ تاخیر سے انصاف، انصاف سے انکار کے مترادف
ہے، مجھے اب تک ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے ۔
پیراگراف نمبر10
شوکت صدیقی نے موقف اپنایا ہے کہ وہ 30جون 2021کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہے ہیں اس لئے انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کی تمام درخواستیں یکم جون2021کو سماعت کیلئے مقرر کی جائیں اور ان کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے مقدمہ نمٹایا جائے۔موجودہ حالات کے حساب سے اگر کوئی اور ریلیف بھی درخواست گزار کاحق بنتا ہے وہ دیا جائے۔