عشق کی انتہا دیکھو۔۔۔شکیل احمد ترابی


انسانوں کی منصوبہ بندی کچھ مگر کائنات تشکیل دینے والے کی تدابیر اکثر کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔رب تعالی کے گھر اور اسکے حبیب ﷺ کے دربار مقدس میں اب کی بار حاضری میں خاصی تاخیر ہو گئی تھی، سوچا تھا کہ اپنے ایک زیر کار منصوبے کو پایہ تکمیل پہنچا کر حاضری دینے جاؤں گا مگر ایک سہانی شام میرے دیرینہ دوست اور معروف صحافی جناب صغیر قمر کا فون آیا کے مدینے سے بلاوا ہے تیاری کریں۔ عرض کی کچھ کام نپٹا کر ایک دو ماہ بعد چلیں گے۔ اگلے دن ان کا پھر فون آگیا کہ دو بار خواب میں کوئی بزرگ آکر کہہ گے ہیں کہ مدینہ پہنچو اور شکیل کو ساتھ لیکر آؤ۔ ایک گناہ گار اور ایسا فرد جس کے اعمال کی پوٹلی میں کچھ نہ ہو یہ سن کر کیسے رک سکتا تھا۔ اس بار پہلا پڑاؤ مدینہ ڈالا۔ امام سفر نے مکہ کی نسبت زیادہ دن مدینہ منورہ میں قیام کے لئے مختص کئے۔ان کا اظہار یہ تھا کہ مکہ میں اللہ کی جلاللیت کے سبب ایسا کیا۔ اپنی حالت اس بار عجب تھی اللہ اور اپنے حبیب ﷺ کے دربار پر دل کی تہوں تک پہنچنے والا قرار اپنی جگہ مگر اول و آخر اس بات کا خوف رہا کہ جس شخصیت سے متعلق اللہ نے سورۃ الحجرات میں فرمایا کہ ’’ اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر ؐ کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو(اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو‘‘
’’ جو لوگ پیغمبر خدا کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں خدا نے ان کے دل تقوی کے لئے آزما لئے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں‘‘
اسی سورہ میں فرمایا کہ ’’ نبی کے قدم سے آگے قدم بھی نہ بڑھاؤ‘‘
وہاں ایک طرف عشق نبی ؐ سے سرشار مگر بے احتیاطی کا شکار دیوانوں کو اپنے ٹیلی فونوں کے زریعے فلمیں بناتے اور غل غپاڑہ کرتے دیکھ کر دل کڑھتا رہا دوسری جانب ہر لمحے اس بات کا خدشہ رہا کہ جناب رسالت مآب ؐ کے حضور کوئی گستاخانہ عمل سرزرد نہ ہوجائے کے جسکی بنا پر سب کچھ غارت ہو جائے۔حضور اکرم ؐ کی مسجد میں جب بھی بیٹھتے یہی زکر ہوتا کہ کتنے خوش بخت تھے وہ لوگ جنھوں نے آپؐ کا دور پایا۔ نبی ؐ کے فرزانے آپ کو مخاطب کرتے تو پہلے کہتے ’’ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان‘‘ احد کے میدان پہنچے جہاں تاریخ کا فیصلہ کن معرکہ ہوا ۔سید الشہدا سیدنا امیر حمزہؓ کا کلیجہ ظالم ہندہ نے چبا ڈالا تھا۔ میں اپنا کلیجہ تھامے اسی مقام پر کھڑا تھا۔ایک جانب ستر شہدا کے مرقد میں سید الشہدا، مصحب بن عمیر اور عبداللہ بن حجش جیسے نابغہ روز ہیرے تہہ خاک سو رہے ہیں۔ جبل احد کے سامنے آنکھیں بند کر کے کھڑا ہوا تو چشم تصور میں جہاد کی فلم چلنے لگی۔آپ ؐ کے عاشق زار سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کفار پر تیروں کی بارش کررہے تھے۔ایک ہزار سے زائد تیر چلا چکے تھے اوردشمن کا حملہ شدت اختیار کر گیا۔دشمن کے تیر نبی برحق ؐ کی جانب بڑھنے لگے سعدؓ نے دشمن کے تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے سے روکا،اللہ کے محبوب ؐ اپنے ترکش سے تیر نکال کر سعد بن ابی وقاصؓ کے سامنے رکھتے جاتے اورفرماتے اے سعد ! تم پر میرے ماں باپ قربان تیر چلاؤ۔سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ؐ کی زبان مبارک سے نکلے یہ الفاظ کسی اور فرد کے لیے کبھی نہیں سنے۔
مسجد نبوی کے دالان میں جب بھی بیٹھتا ازان کے چبوترے پر نظریں جم جاتی۔ یوں تو خوش الحان موزن کی ازان سے ناقابل بیاں سکوں ملتا مگر بلالؓ نظر آتے نہ روح بلالی محسوس ہوتی۔ دالان ہی میں ’’حضرت بلالؓ ‘‘ کے مصنف سید سلیم گیلانی بہت یاد آئے جو جناب بلالؓ سے متعلق خوبصورت کتاب تحریر کرکے آخرت کے لئے توشہ اکٹھا کرگئے۔ وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری جناب دانیال گیلانی بھی جناب سلیم گیلانی کے فرزند ارجمند ہونے کے ناطے مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔
نبی کریم ؐ کی مسجد میں سیدنا بلالؓ بارہا یاد آئے ۔ آپ ؐ کے انتقال کے بعد جناب بلالؓ مدینہ چھوڑ گئے تھے کے آپ ؐ کے بغیر آپ کے شہر میں جینا محال تھا۔ بہت بعد حضرت بلالؓ کی مدینہ آمد کا غل ہوا۔ دھائی مچ گئی کہ آج رسول امین ؐ کے مُوزن سیدنا بلالؓ آئے ہیں ۔ سب نے مل کرحضرت بلالؓ سے درخواست کی اللہ عزوجل کے لئے ایک دفعہ وہ اذان سنادوجو رسول ؐ کو سناتے تھے۔ بلال فرمانے لگے،دوستو ! یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیونکہ حضورؐ کی حیات ظاہری میں اذان دیتا تھا تو جس وقت اشھدان محمدا رسول اللہ کہتا تھاتو رسول اللہ ؐ کو سامنے آنکھوں سے دیکھ لیتا تھا۔ اب بتاؤ کہ کسے دیکھوں گا؟ مجھے اس خدمت سے معاف رکھو۔ ہر چند لوگوں نے اصرار کیا مگر حضرت بلالؓ نے انکار ہی کیا۔
بعض صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ بلالؓ کسی کا کہنا نہیں مانیں گے تم کسی کو بھیج کر حضرت حسنؓ و حسینؓ کو بلالو،اگر وہ آکر بلالؓ سے اذان کی فرمائش کریں گے تو بلالؓ ضرور مان جائیں گے،کیونکہ حضورؐ کے اہل بیت سے بلالؓ کو عشق ہے۔ یہ سنکر ایک صاحب جا کر حضرت حسنؓ اورحسینؓ کو بلالائے۔ حضرت حسینؓ نے آکر بلالؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے بلالؓ ! آج ہمیں بھی وہی اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان ؐ کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت بلالؓ نے امام حسینؓ کو گود میں اٹھا کر کہا۔ تم میرے محبوب ؐکے جگر پارہ ہو، نبی ؐ کے باغ کے پھول ہو ،جو کچھ تم کہو گے منظور کروں گا، تمہیں رنجیدہ نہ کروں گا کہ اس طرح حضورؐ کو مزارمبارک میں رنج پہنچے گا اور پھر فرمایا: حسینؓ ! مجھے لے چلو جہاں کہو گے اذان کہہ دو ں گا۔
حضرت حسینؓ نے حضرت بلالؓ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مسجد کی چھت پر کھڑا کردیا۔ بلالؓ نے اذان کہنا شروع کی اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! مدینہ منورہ میں یہ عجب غم اور صدمہ کا وقت تھا۔ آج مہینوں کے بعد اذانِ بلالؓ کی آواز سنکر حضورؐ کی دنیوی حیات مبارک کا سماں بندھ گیا۔ بلالؓ کی اذان سنکر مدینہ منورہ کے بازار وگلی کوچوں سے لوگ مسجد میں دیوانہ وار جمع ہوئے ہرایک شخص گھر سے نکل آیا ۔ پردہ دار عورتیں باہر آگئیں اپنے بچوں کو ساتھ لائیں۔ جس وقت بلالؓ نے اشھد ان محمدا رسول اللہ منہ سے نکالا ہزار ہا چیخیں ایک دم نکلیں اس وقت رونے کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔عورتیں روتی رہیں بچے اپنی ماں سے پوچھتے تھے کہ تم بتاؤ بلالؓ مُوزن رسول اللہ ؐ تو آگئے۔ مگر رسول اللہ ؐ مدینہ کب تشریف لائیں گے۔
حضرت بلالؓ نے جب اشہد ان محمدا رسول اللہ منہ سے نکالا اور حضورؐ کو آنکھوں سے نہ دیکھا تو غم ہجر میں بے ہوش ہو کر گر گئے اور بہت دیر کے بعد ہوش میں آکراٹھے اور روتے رہے۔پھر ملک شام چلے گئے۔
اس واقع کو یاد کر کے عجیب سوچوں میں مبتلا رہا کے عشق کی وہ کیا انتہا تھی اور آج کیا بے حسی ہے کے نام محمدؐ کتنی بار سنتے ہیں مگر روح اور جسم پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
حکمران ہوں یا عام اُمتی روضہ رسول ؐ پر کھڑے ہو کر سلام تو پیش کرتے ہیں ‘ عشق رسول ؐ کے دعوے بھی بہت مگر آپ ؐ کی چھوڑی شریعت کہیں نافذ نظر نہیں آتی ۔ پھر یہ عشق ہے یا اپنی زات کے ساتھ دھوکہ؟
سوچنے کا مقام ہے کہ کیا دھوکہ باز دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں گے؟؟ اور خُدا اُن حکمرانوں کو معاف کر دیگا جو اُس کے پیغمبر ؐ کی شریعت کو بے توقیر کرتے رہے ؟