کراچی(صباح نیوز)امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات 10محرم الحرام یوم عاشورہ کے فوری بعد منعقد کیے جائیںاور NA-245کے ضمنی انتخاب کو مزید آگے بڑھایاجائے ،تاکہ کراچی کے شہری پوری یکسوئی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے سکیں،بلدیاتی انتخابات کے بیلٹ پیپرز آر اوز اور ڈی آراوز کے پاس جاچکے ہیں ،گھپلا اور دھاندلی شروع ہوچکی ہے ،بیلٹ پیپرز میں شفافیت ختم ہوچکی ہے اس لیے بلدیاتی انتخابات کے بیلٹ پیپرز کو دوبارہ نئے کلرز میں چھپوایا جائے اور دھاندلی کے دروازے کو بند کیا جائے ،پیپلزپارٹی کے غیر قانونی سیاسی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو فوری برطرف کرکے ہنگامی بنیادوں پر سڑکوں کی مرمت کاکام کیا جائے ، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مرتضیٰ وہاب کی ناقص کارکردگی پر نہ صرف انہیں برطرف کردیا جاتا بلکہ ان سے پوچھا جاتا کہ جعلی تصویریں چھپوا کر کراچی کے عوام کی آنکھوں پر کیوں دھول جھونک رہے ہیں ،تاجر برادری ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ناجائز اور ظالمانہ ٹیکس کسی صورت قبول نہیں کیاجائے گا،جماعت اسلامی تاجر تنظیموں کے اس فیصلے کے ساتھ ہے کہ جب تک ٹیکس ختم نہیں کیا جاتا بجلی کے بل ادا نہیں کیے جائیں گے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں شہر میں بارش کے باعث پیدا شدہ صورتحال اور عوام کے دیگرسنگین مسائل کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی ،سکریٹری منعم ظفر خان ،ڈپٹی سکریٹری عبدلرزاق خان، پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ودیگر بھی موجود تھے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ شہر اس وقت بدترین صورتحال سے دوچار ہے ، کراچی کے شہری شدید ذہنی وجسمانی اذیت کاشکار ہیں ،وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیر بلدیات اورپیپلزپارٹی کے غیر قانونی سیاسی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب بارش میں صرف فوٹو سیشن کروارہے ہیں ،وہ اگر چنگ چی رکشے کو چھوڑ کر کلٹس گاڑی میں بھی پورے کراچی کا دورہ کریں تو ان کو پتا چل جائے گا کہ کوئی سڑک ایسی نہیں جس میں بارش کا پانی اورگندگی موجود نہ ہو اور کوئی سڑک ایسی نہیںہے جس میںگڑھے نہ پڑ گئے ہوں،حالیہ بارش کے بعد ڈیفنس ،کلفٹن سمیت کراچی کے تمام علاقے بدترین صورتحال سے دو چار ہیں ،سندھ حکومت کی نااہلی و ناقص کارکردگی سے آج کراچی تباہی سے دوچار ہے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ الیکشن کمیشن نے اپنی من پسند پارٹیوں کے کہنے پر الیکشن کو ملتوی کردیا ، الیکشن 10محرم الحرام عاشورہ کے فوری بعد کیے جائیں ،بلدیاتی انتخابات جب بھی ہوںان تمام پارٹیوں کو مسترد کردیںجنہوں نے کراچی کا مینڈیٹ لینے کے باوجود کراچی کے لیے سوائے جھوٹے اعلانات کے کچھ نہیں کیا ،کراچی کے عوام اب ذہنی غلام نہیں ہیں ،اب ان میں شعور پیدا ہوا ہے ، جماعت اسلامی اہل کراچی کے حقو ق اورمسائل کے حل کے لیے جدوجہد کررہی ہے، بد قسمتی سے سندھ حکومت کی ترجیحات میں کراچی شامل ہی نہیں ہے اور تمام حکومتی جماعتوں نے بھی کراچی کو بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے ۔انہوں نے کہاکہ مردم شماری کے حوالے سے ایک بار پھر سے سازش کی جارہی ہے کہ کراچی کی آبادی کو آدھا کیا جائے ،اگر مردم شماری اس طریقے سے کی گئی کہ جو جہاں رہتا ہے اس کو شمارنہ کیا گیاتو ایسی مردم شماری کوکسی صورت قبول نہیں کریں گے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ،المیہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبے میں شامل تمام پارٹیاں درست مردم شماری کے حوالے سے بات نہیں کرتیں،جماعت اسلامی واحدجماعت ہے کہ جس نے درست مردم شماری کے حوالے سے طویل جدوجہد کی اور آج بھی جعلی مردم شماری کو مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہاکہ جماعت اسلامی نے 24جولائی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے التواء کے حوالے سے جھوٹا الزام لگانے پر الیکشن کمیشن کو 50کروڑروپے ہرجانے کا قانونی نوٹس جاری کردیا ہے،قانونی نوٹس صدر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ کے توسط سے جاری کیا ہے ، الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کا خط پڑھے بغیر جھوٹے اور بے بنیاد الزام سے جماعت اسلامی کی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گاہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر اس الزام تراشی پر معافی مانگے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ کراچی کے تاجروں نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال 42فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے ،کراچی کے تاجروں پر جبری ریٹیلر سیلز ٹیکس لگایا جارہا ہے ،کے الیکٹرک کا ادارہ اس ظالمانہ ٹیکس وصولی کا سہولت کار بنا ہوا ہے اس سے کراچی کے عوام پہلے ہی عدم اطمینان کا شکار ہیں ،یہ وہ ادارہ ہے جو بغیر کسی ایگریمنٹ کے وفاقی ادارے سوئی سدرن گیس کمپنی سے گیس لے رہا ہے ، کے الیکٹرک گیس کمپنی کا 100ارب روپے کا نادہندہ ہے ،کسی بھی حکومت کو اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ گیس کمپنی کے پیسے واپس دلوائے ، کے الیکٹرک کوکلاء بیک کی مد میں کراچی کے عوام کو 42ارب روپے ادا کرنے ہیں کسی حکومت اور پارٹی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ کراچی کے عوام کو ان کے پیسے دلوائے ۔ اگر کے الیکٹرک کی انتظامیہ اس ٹیکس کی وصولی سے معذرت کرلے تو وزیر خزانہ کو اتنی جرات نہیں ہوگی کہ وہ اس کو پابند کرے کہ کراچی کے تاجروں سے ٹیکس وصول کرے ،جماعت اسلامی کی تاجر تنطیموں سے مشاورت ہوئی ہے اور تمام تاجر ٹیکس اداکرنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ انہوںنے خود تجویز دی تھی کہ ٹیکس وصول کیا جائے لیکن جبری اور جعلی طریقے سے ظالمانہ ٹیکس کسی صورت قبول نہیں کیاجائے گا۔