126 ویں نمبر والی عدلیہ۔۔۔انصارعباسی


چیف جسٹس گلزار احمد نے عدلیہ کے بارے میں جو کہا وہ سر آنکھوں پر لیکن میرا ووٹ علی احمد کرد کے حق میں جاتا ہے جنہوں نے ہماری عدلیہ کے بڑوں کو اس امر پر غور کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ آخر پاکستان کی عدلیہ دنیا کے 130 ممالک کی لسٹ میں 126ویں نمبر پر کیوں ہے؟

اگر سب اچھا ہے، اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں، اگر واقعی یہاں عدل کا بول بالا ہے، عدلیہ پر کوئی بیرونی دباو نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے؟

کرد صاحب نے درست کہا کہ لوگ انصاف لینے کے لیے عدالتوں میں صبح آٹھ بجے جاتے ہیں اور دوپہر کو زخمی دل کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔

ابھی اس نکتہ پر بات نہیں کرتے کہ کیا پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے بھی یا نہیں، صرف اس بات پر غور کریں کہ ہمارا عدالتی نظام عوام کو انصاف فراہم کر رہا ہے یا نہیں؟

یہ سوال عوام کے سامنے بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن عمومی طور پر آپ کسی سے بھی یہ سوال پوچھیں گے تو جواب نفی میں ملے گا۔ سچ پوچھیں تو لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں کیوں کہ انصاف نہ صرف مہنگا بلکہ بہت مہنگا ہو گیا ہے بلکہ مقدمات کے فیصلوں میں دہائیاں بلکہ کئی کیسوں میں تو نسلیں گزر جاتی ہیں۔

کوئی ایک دہائی قبل عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں جو خواب دیکھا وہ تو شرمندۂ تعبیر نہ ہوا البتہ وکلاء کی فیسیں لاکھوں کروڑوں میں چلی گئیں۔ علی احمد کرد اُن وکلاء رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے عدلیہ کہ آزادی کے لیے قابل ذکر کام کیا۔

 کرد صاحب تو ایک سادہ طبیعت کے سچے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی اُس جدوجہد کو کیش نہیں کروایا لیکن اُن کے کچھ ساتھیوں نے فیسوں کو لاکھوں کروڑوں تک بڑھا دیا اور یوں انصاف کی فراہمی کے لیے پیسے کے کردار کو بھی یہاں بہت اہمیت مل گئی۔

گویا عدلیہ کی آزادی کی تحریک سے وہ کچھ تو نہ ملا جس کے لیے پوری قوم نے جدوجہد کی لیکن انصاف ضرور مہنگا ہوگیا، جس طرف وکلاء کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے بڑوں کو بھی توجہ دینی چاہیے۔

سستے انصاف کی جلد فراہمی کا خواب خواب ہی رہا۔ ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ والے نعرے نعرے ہی رہے، سیاسی جماعتوں نے بھی وعدے کیے لیکن اُن پر عمل نہ کیا۔

ایسے حالات میں اگر ہماری عدلیہ کے بڑے یہ یقین کر بیٹھیں کہ عدالتیں بہترین طریقے سے کام کر رہی ہیں اور انصاف کی فراہمی میں کوئی مسئلہ نہیں تو پھر یہ قابل فکر بات ہے۔

حقیقت وہی ہے کہ ہم انصاف کی فراہمی میں دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے ورنہ جلد ہی ہم انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے آخری نمبر پر پہنچ جائیں گے۔ ویسے ابھی بھی ہم نے کیا کسر چھوڑی ہے یعنی آخر میں سے چوتھے نمبر پر ہیں۔

اپنے بارے میں اگر کوئی کوئی خوش فہمی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم حقیقت دیکھنے سے قاصر ہیں۔ جہاں تک عدلیہ کہ آزادی اور دبائو کی بات ہے تو پھر ہم کچھ کہیں یا نہ کہیں عدلیہ کو اپنے اندر سے اُٹھائی گئی آوازوں پر غور کرنا چاہیے اور ان معاملات کو ignore کرنے کی بجائے تحقیقات کرنی چاہئیں۔

ویسے کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کے ہر مارشل لاء کو ہماری عدلیہ نے ہی تحفظ دیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ پاکستان سے بیرون ملک اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدد سے گئے جنہوں نے عدلیہ کو اُن کے حق میں neutralise کیا ؟

مثالیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن شاید میرے لیے یہ مناسب وقت نہیں کہ اس پر مزید بات کروں۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے جو اگر صحیح کام کرے ، انصاف کی فراہمی کا ضامن بن جائے اور اسے انصاف کی فراہمی کے ضامن کے طور پر عام لوگ دیکھیں تو پھر یقین جانیں بہت کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

عدلیہ اگر صحیح کام کرے تو کوئی دوسرا دارہ غلط کام کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ آزاد عدلیہ، جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ پاکستان کے مستقبل، عوام کے حقوق اور اُن کے تحفظ کے لیے لازم ہے۔ اس بارے میں ہم سب کو سوچنا چاہیے، فکر کرنی چاہیے اور جو ممکن ہو اس کے حصول کے لیے کرنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ