ہندو مت جسے سناتن دھرم (ابدی قانون) بھی کہا جاتا ہے، کی ابتدا کے بارے میں یہ تصور ہے کہ یہ زمان و مکان سے قبل کا ہے، اس کے تقریباً ایک ارب پیروکار ہیں، جو دنیا کی آبادی کے تقریباً 15 فی صد ہیں۔ عیسائیت (31%) اور اسلام (23%) کے بعد ہندومت دنیا میں تیسرا بڑا مذہب ہے۔ اسلام اور عیسائیت کے برعکس اسے ایک مشرک مذہب (ایک سے زیادہ خداؤں کی عبادت) سمجھا جاتا ہے جو کسی ایک پیغمبر پر نازل نہیں ہوا، یہ مختلف مقدس متون پر انحصار کرتا ہے، جن میں وید، پران، بھگوت گیتا اور دیگر شامل ہیں۔ تقریباً چار ہزار سالوں میں تشکیل پانے والے ہندو مذہب کو دنیا کا قدیم ترین مذہب سمجھا جاتا ہے۔
’’ہندو‘‘ کی اصطلاح فارسی میں انڈس اور سنسکرت میں سندھو سے نکلی ہے۔ یہ قدیم فارسی صحیفوں میں جغرافیائی اصطلاح کے طور پر شروع ہوا۔ سکندر اعظم جب ہندوستان آیا تو اس کی تواریخ میں اس دریا کو یونانی میں ’’ انڈوئی‘‘ کہا گیا، جس سے یورپی نام انڈین نکلا۔ 711 عیسوی میں سندھ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں کی آبادی کو ’’ہندو‘‘ اور ملک کو ’’الہند‘‘ کہا گیا۔ لیکن صدیوں تک اس اصطلاح نے ایک سیکولر مفہوم برقرار رکھا، ہندو مت کا بطور مذہب تصور انگریزوں کے یہاں داخل ہونے سے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔
کچھ علمی مقصد کی وجہ سے، اور کچھ ان کی مجبوری کہ نام اور درجہ بندی الگ الگ ہوں، اور متصورہ مذہبی انتشار کو قابو میں رکھنے کی انگریزوں کی مجبوری نے ہندو ازم کی اصطلاح پیدا کی، اس طرح ہندوستان کے لاتعداد نظام ہائے عقائد اور فرقوں کی ایک عنوان کے تحت تلخیص کی گئی، تاکہ اسے صحیح طریقے سے درج کیا جا سکے۔ شروع میں مختلف عقائد کی باریکیاں معلوم نہیں تھیں۔ ذات پات کے نظام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جو مختلف خطوں میں مختلف شکلوں اور ناموں کے دماغ کو چکرا دینے والے تنوع کا حامل تھا۔
انگریزوں نے ’’ ترتیب‘‘ لانے اور اسے ایک ’’ مناسب نظام ‘‘ بنانے کی کوشش کی، جس نے ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کو مزید مستحکم اور مستقل بنا دیا۔ ہندو مت کی اصطلاح بہت سے ایسے مختلف سلسلوں اور عقائد کی شاخوں کے لیے ایک چھتری کے طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح معلوم ہوتی ہے، جن میں دیوتاؤں کے کردار، وقت، زندگی اور آخرت کی زندگی، نجات اور مذہبی فلسفے کے دیگر اہم اجزا کے بارے میں صرف چند ہی عام مفاہیم مشترک ہیں۔
تقریباً چار ہزار سالوں میں، جب سے ہندوستانی مذاہب کا یہ قدیم ترین مذہب موجود ہے، اس میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ ویدک زمانے میں (جس کا نام ویدوں کی بنیاد پر رکھا گیا) تقریباً 1500 قبل مسیح سے 500 قبل مسیح تک، وادی سندھ کی ثقافت کے ختم ہونے کے بعد، چار وید جو اس وقت تک زبانی طور پر منتقل ہو چکے تھے، لکھے گئے۔ رگ وید، سام وید، یجر وید اور اتھر وید ان کلام پر مشتمل ہیں جن میں عقائد اور رسومات کو بیان کیا گیا ہے اور انھیں ہندو مت کی تمام شاخوں نے فوق الفطری اصل کے طور پر قبول کیا ہے۔
رفتہ رفتہ برہما کی جگہ شخصی دیوتاؤں نے لے لی۔ نامعلوم وجوہ کے سبب 200 قبل مسیح تک ویدک دور ختم ہو گیا اور ویدک رسومات نے کچھ اہمیت کھو دی۔ اگرچہ برہمن، جو اکیلے ایسے تھے جنھیں قربانی کرنے اور قربانی کی رسومات کو انجام دینے کی اجازت تھی، بدستور اقتدار میں رہے، لیکن مذہب کی دو سنیاسی شاخوں نے امتیازی حیثیت حاصل کی: جین مت اور بدھ مت۔ یہ دونوں شاخیں اصلاحی تحریکیں تھیں جو وادی گنگا میں غیر آریائی راجاؤں نے شروع کی تھیں۔ جین اور بدھ متوں نے ویدک اپنشدوں سے صرف تناسخ اور کرما کے بارے میں تعلیم کو اپنایا۔ بدھ مت 500 قبل مسیح اور 700 عیسوی کے درمیان حکمران مذہب بن گیا، جین مت بھی ساتھ ساتھ موجود رہا لیکن کبھی حکومت نہیں کی۔ ویدک برہمنیت کی پچھلی شاخیں اور بہت سے مشہور فرقے بدھ مت کے دور میں جاری رہے۔ 700 عیسوی کے بعد سے بدھ مت کی پسپائی کے ساتھ برہمن ازم نے ایک نئی شکل میں اپنی پرانی حیثیت دوبارہ حاصل کر لی۔
جدید ہندو مت کی تشکیل انیسویں صدی سے، ہندو رسومات جیسا کہ ذات پات کا نظام، اچھوت پن، بیوہ کو جلانے اور بچپن کی شادی پر برطانوی/مغربی تنقید کے ردعمل کے طور پر ہوئی۔ براہمو سماج (رام موہن رائے) اور آریہ سماج نے دو مختلف سمتوں میں قیادت سنبھالی۔ براہمو سماج نے ہندو مت کے توحید پرست کردار کو بحال کرنے کی کوشش کی، اور برطانوی روایات کی طرف سے نکتہ چینی پر معمول کے معیار سے انحراف پر سزائیں دیتے ہوئے ہندو مذہب کو ’’جدید بنانے‘‘ کی کوشش کی۔ دوسری طرف آریہ سماج نے روایات پر اصرار کیا، اور ویدوں کو مقدس اور ویدک معاشرے کی بنیاد قرار دے کر ویدک مذہب کو زندہ کرنے کی کوشش کی، وہ ویدک سماج جو یورپ سے بہت پہلے ہوائی جہازوں اور تکنیکی ترقی کی دیگر علامتوں سے واقف تھا۔ آریہ سماج کی بنیاد دیانند سرسوتی نے 1875 میں رکھی تھی۔
’’جدیدیت‘‘ کی تازہ ترین لہر 1920 کی دہائی میں آئی جب 1925 میں ہندو مت نے ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی شکل میں جارحانہ قوم پرستی کے ساتھ اختلاط کر لیا۔ اور وی ڈی ساورکر نے اپنی کتاب ’’ہندوتوا: کون ہے ہندو‘‘ سے اس کی نظریاتی بنیاد رکھ دی، جو 1923 میں شایع ہوئی تھی۔ ہندوازم کی جن سیاسی شکلوں سے ہم ان دنوں بخوبی واقف ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندو مت واقعی سیاسی بن گیا ہے۔
فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (کے سی ایف آر) کے چیئرمین ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس