شمع ہدایت کی ٹمٹماہٹ… تحریر الطاف حسن قریشی


ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی جو متعدد اعلی تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں، انہوں نے اپنی یادداشتوں چند یادیں، چند تاثرات میں ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کیا ہے جس سے مسدسِ حالی کی ذہنوں پر مضبوط گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے دوست منظور قادر جو سر عبدالقادر کے فرزند ہونے کے علاوہ چوٹی کے قانون دان بھی تھے، وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث اسپتال میں داخل ہو گئے۔ میں ان کی عیادت کے لیے گیا۔ وہ سخت اذیت کی حالت میں مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے بچپن کا زمانہ یاد آ رہا ہے جب والدِ محترم ہمیں مسدسِ حالی سبقا سبقا پڑھایا کرتے تھے۔ میں آج اسے پڑھنا چاہتا ہوں، وہ مجھے لا دیجیے۔ میں نے کل تک لے آنے کا وعدہ کیا۔ اِس پر انہوں نے کہا کہ مجھے مسدس کے جو اشعار یاد ہیں، وہ سناو۔ میں نے اشعار سنانا شروع کیے، تو ان کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی۔ میں رک گیا، تو رندھی ہوئی آواز میں بولے کہ شعر سناتے جاو۔ یہ سلسلہ خاصی دیر تک جاری رہا۔ دوسرے روز مسدسِ حالی لے کر حاضر ہوا، تو بہت خوش ہوئے اور اشعار گنگنانے لگے۔ ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی تھی۔

مسدس انیسویں صدی کے وسط میں لکھی گئی جس میں اسلامیانِ ہند کی زبوں حالی کا مرثیہ تحریر تھا۔ اس کے بطن سے اس کرب نے جنم لیا جس نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور قومی آزادی کی تحریکیں پرورش پانے لگیں۔ حالی کی ولادت سے پہلے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برِصغیر پر ایسے کڑے وقت بھی آئے جب اسلام کا وجود فی الحقیقت خطرے میں پڑ گیا تھا اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹ جانے کے سارے اسباب جمع ہو گئے تھے۔ اگر اس نازک وقت میں اللہ تعالی غیرمعمولی صاحبانِ نظر اور اہلِ عزیمت شخصیتوں کی قیادت فراہم نہ کرتا، تو ایمان و وجدان کی دولت لٹ چکی ہوتی اور اللہ اور اس کے رسول کے نام لیوا گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جاتے۔ پھربرِصغیر میں حالی پیدا ہوتے نہ اقبال اور نہ قیامِ پاکستان کا سرے سے کوئی امکان پیدا ہوتا اور نہ سید ابوالاعلی مودودی اسلام کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے جماعتِ اسلامی کی داغ بیل ڈال سکتے تھے۔ ہم سب مسلمان شیخ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نہایت ممنونِ احسان ہیں کہ ان کی دینی، سیاسی اور فکری بصیرت اور عسکری ذکاوت نے برِصغیر میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹنے سے بچا لیا۔ اسلام کو ازسرِنو زندگی عطا کی اور اِنتشار کے اندر سے اتحاد کی قوتوں کو جدید خطوط پر منظم بھی کیا۔ غضب خدا کا کہ مسلمانوں اور اِسلام پر یہ برا وقت اس وقت آیا جب مغلیہ خاندان برسرِاختیار تھا اور سیاسی اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا حالانکہ اس برِصغیر میں غیرمسلم بھاری اکثریت میں تھے۔

سید ابوالاعلی مودودی تجدید و احیائے دین میں لکھتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اسلام جاہل بدووں میں پیدا ہوئی تھی۔ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہیں۔ نبوت، وحی ، حشرونشر، دوزخ و بہشت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلامِ الہی متشبہ ہونے، وحی کا نزول عقلا بعید، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیریقینی اور معراج کو علانیہ محال قرار دِیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصا آپ کی ازواج کی تعداد اور آپ کے غزوات و سرایا پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ یہاں تک کہ لفظ احمد ۖ اور لفظ محمد ۖ سے بھی بیزاری ہو گئی اور جن کے ناموں میں یہ لفظ شامل تھا، ان کے نام بدلے جانے لگے۔ دنیاپرست علما نے اپنی کتابوں کے خبطوں میں نعت لکھنا چھوڑ دی۔ ابوالفضل نے نماز، روزہ، حج اور دوسرے شعائرِ دینی پر سخت اعتراضات کیے اور ان کا مذاق اڑایا۔ شعرا نے ان شعائر کی ہجو لکھی جو عوام کی زبانوں تک پہنچی۔یہ فتنہ بھی چھوڑا گیا کہ حضرت محمد ۖ کی بعثت پر ایک ہزار سال گزر چکے ہیں اور اِس دین کی مدت ایک ہزار سال ہی تھی، اِس لیے اب وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ ایک نئے دین کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ایک نئے دین اور ایک نئی شریعت کی طرح ڈالی گئی جس کا بنیادی مقصد ہندووں اور مسلمانوں کے مذہب کو ملا کر ایک مخلوط مذہب بنانا تھا۔ دربار کے خوشامدی ہندووں نے اپنے بزرگوں کی طرف سے پیش گوئیاں سنانا شروع کر دیں کہ فلاں زمانے میں ایک مہاتما بادشاہ پیدا ہو گا۔ اِسی طرح بندہ زر علما نے بھی اکبر کو مہدی اور صاحبِ زماں اور اِمامِ مجتہد ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک تاج العارفین صاحب یہاں تک بڑھے کہ اکبر کو انسانِ کامل اور خلیف الزماں ہونے کی حیثیت سے اللہ کا عکس ہی ٹھہرا دیا۔ اس نئے دین کا کلمہ لا الہ الا اللہ اکبر خلیف اللہ تجویز کیا گیا۔ ہر روز صبح بادشاہ کا درشن کرایا جاتا اور بادشاہ کے سامنے جب حاضری کا شرف عطا ہوتا، تو سجدہ بجا لایا جاتا۔

یہ تو حکومت کا حال تھا جبکہ عوام کی حالت یہ تھی کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے، وہ اِیران اور خراسان کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں ساتھ لائے۔ جو لوگ ہندوستان میں مسلمان ہوئے تھے، ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ اِس لیے وہ پرانی جاہلیت کے سبب نئی باتیں اپنے عقائد اور اپنے اعمال میں لیے ہوئے تھے۔ ان کے ملاپ سے جو تمدن وجود میں آیا، اس میں شرک بھی تھا، نسلی اور طبقاتی امتیازات، اوہام و خرافات اور نو ایجاد رسموں کی ایک نئی شریعت بھی۔ دنیاپرست علما اور مشائخ اس نئے مذہب دینِ الہی کے پروہت بن گئے تھے۔ وہ نذرانے وصول کرتے اور لوگوں میں فرقہ بندی کے تحفے بانٹتے رہتے تھے۔ احکامِ دینی عملا منسوخ ہو چکے تھے۔اِس ہولناک طوفان کے آگے مضبوط بند باندھنے اور احیائے دین کا سلسلہ قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالی نے اس موقع پر جو قیادت فراہم کی اور اس نے جس بیمثال حکمت، دینی حمیت اور عملی فراست سے اس فتنے کا قلع قمع کیا، اس کی ایمان افروز روداد آگے آتی ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ