پوری دنیا میں جمہوری نظام اس لئے تخلیق کیا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے عالمی طاقتیں اپنے سرمائے، اثرورسوخ اور فوجی قوت سے حکومتوں کا رخ جس طرف چاہیں پھیر سکیں۔ لیکن ان کے نزدیک اس نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ کبھی کبھی عوام قابو میں نہیں آتے اور ایسے لیڈر منتخب کر لیتے ہیں جو اپنی قوم کو آزادی، حریت اور وقار کے ساتھ جینے کا درس دینے لگتے ہیں ۔ ایسے حکمران یا لیڈر صرف اپنے ملکوں میں ہی نہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ممالک میں بھی عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے چیلنج بن جاتے ہیں۔ اس صورت میں امریکہ اور دیگر عالمی قوتیں ان کے خلاف متحد ہو جاتی ہیں اور انہیں بدلنے کا اعلان کر دیتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے خواہ انہیں لاکھوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں، لوگوں کو سیاسی عہدوں کا لالچ دے کر ان کے مقابلے پر کھڑا کرنا پڑے یا پھر اس ملک میں فوجی قوت کے ذریعے ان کا تختہ الٹنا پڑے، وہ کر گزرتیں ہیں۔ یہ سب کچھ کام نہ آئے تو آخری حربے کے طور پر اپنی افواج بھی اگر اس ملک میں اتارنا پڑیں تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اس سارے کھیل کا ایک ہی عالمی نگران ہے اور اس کا نام ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ حکومتیں بدلنے کے اس کھیل کی تاریخ بہت پرانی ہے جو 1893 سے شروع ہوتی ہے، جب امریکہ نے اپنے پڑوسی جزیرے ہوائی پر قبضہ کیا۔ پہلے اس ملک میں اپنے خریدے ہوئے سیاست دانوں اور کرائے کے مظاہرین کے ذریعے ہنگامے شروع کروائے گئے پھر ان مظاہرین سے یہ مطالبہ کروایا گیا کہ امریکہ، ملکہ لیلو کلانی کے مقابلے میں ان کی مدد کرے۔ امریکی صدر نے راتوں رات سی آئی اے کے کہنے پر ہوائی فوجیں اتار دیں اور پھر اس ملک کے سیاہ و سفید پر قابض ہو گیا۔ پانچ سال بعد 1898 میں امریکہ اپنے ایک اور ہمسایہ ملک پورٹو ریکو میں اس جھانسے پر داخل ہوا کہ وہ اسے سپین سے آزادی دلائے گا، اور پھر اگلے ہی سال اسی ترغیب کو لے کر امریکہ نے سپین میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ چھ سال بعد 1908 میں تین ممالک نکارا گوا، ہیٹی اور ڈومینکن ری پبلک میں امریکی حکومتوں کو بدلنے کے نام پر دندناتے ہوئے داخل ہو گئے۔ یہ ایک سو سال پہلے کی بات ہے اور ابھی تک دنیا میں جمہوریت نام کی چڑیا اتنی مقبول نہیں ہوئی تھی۔ نوآبادیاتی طاقتیں دنیا پر راج کرتی تھیں اور لوگوں کو عادت تھی کہ جو کوئی بھی فوج لے کر آ جائے، وہی ان کا حکمران بن جاتا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے آتے آتے دنیا کو جمہوریت کے پرفریب جال میں جکڑا جا چکا تھا اور سرد جنگ کے زمانے میں تو اسے ایک ہتھیار کے طور پر کیمونزم کے خلاف مسلسل استعمال کیا جاتا رہا۔ ملکوں میں امریکیوں نے اپنے سرمائے سے جمہوری سیاسی پارٹیاں قیام کروائیں جن کو اس ملک کے سرمایہ دار بھی رقم فراہم کرتے تھے اور عالمی کارپوریٹ مافیا بھی ان سیاست دانوں کی سرپرستی کرتا تھا۔ ان دونوں کا گٹھ جوڑ دراصل اس ملک کے وسائل پر ان جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعے قبضہ کرنا ہوتا تھا۔ جمہوری سیاست کرنے والے ہمیشہ عوام اور سرمایہ داروں کو ڈراتے تھے کہ اگر کیمونسٹ آ گئے تو پھر کسی کی کوئی نجی ملکیت نہیں ہو گی، نہ دکان اور نہ فیکٹری، تم سب مزدور ہو جاؤ گے۔ اس خوف سے سہمے ہوئے سرمایہ دار انہیں سرمایہ فراہم کرتے اور ساتھ ہی عالمی سرمایہ داروں سے معاہدوں کے ذریعے خود کو مزید محفوظ بھی بنا لیتے۔ لیکن جیسے ہی کسی ملک میں عوام نے جمہوری طور پر کسی ایسے لیڈر کو منتخب کیا جس نے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے وسائل کو عالمی سرمایہ دار مافیا سے آزاد کرنے کی کوشش کی تو امریکہ سمیت عالمی قوتوں نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ اس نوعیت کا پہلا معرکہ 1953 میں ایران میں برپا ہوا۔ ایرانی قوم کی خوش بختی اور خوش نصیبی تھی کہ انہیں محمد مصدق کی شکل میں ایک ایسا لیڈر میسر آ گیا جو مغربی طاقتوں کے نظام سے نہ تو مرعوب تھا اور نہ ہی ان کے زیر سایہ رہ کر سیاست کرنا چاہتا تھا۔ ایران میں تیل دریافت ہو چکا تھا اور برطانوی اور امریکی کمپنیاں اس تیل کے ذخائر پر ایک منصوبہ بندی سے قبضہ کر چکی تھیں۔ اس ضمن میں شاہ آف ایران رضا شاہ پہلوی نے ایک اینگلو ایرانی کمپنی کو تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ مصدق نے 1949 میں جبہ ملی کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی بنائی جس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں غیر ملکیوں کو ایرانی سیاست سے بے دخل کرنا شامل تھا۔ اس نے یہ نعرہ بھی بلند کیا کہ اگر وہ برسرِ اقتدار آ گیا تو پھر اینگلو ایرانی کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ عوام نے اس خوددار اور غیرت و حمیت کے حامل لیڈر کو منتخب کیا اور 28 اپریل 1951 کو پارلیمنٹ میں 12 کے مقابلے میں 79 ووٹوں سے وزیر اعظم منتخب ہو گیا۔ حلف اٹھانے کے دو دن بعد ہی اس نے یکم مئی کو تیل کی کمپنیوں کو نجی ملکیت میں لے لیا۔ اس کا یہ اقدام امریکہ اور یورپ کو غضبناک کرنے کے لئے کافی تھا۔ لیکن اس نے اس کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اتنا کچھ کیا کہ اس کی مقبولیت امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ وہ اگر عوام میں مزید مقبول ہوا تو پھر اس کو ہٹانا مشکل ہو جائے گا۔ مصدق نے تمام بے روزگاروں کے لئے وظیفہ مقرر کیا۔ تمام فیکٹری مالکان کو بیمار اور زخمیوں کو معاوضہ دینے کیلئے کہا، مزارعین کو جبری مزدوری سے نجات دلائی اور ساتھ ہی زمینداروں کو پابند کیا کہ وہ اپنی زرعی آمدنی کا بیس فیصد ترقیاتی فنڈ میں جمع کروائیں۔ اس طرح کے بیشمار ایسے اقدامات تھے جن کی وجہ سے مصدق ایک مقبول ترین رہنما کی حیثیت سے ابھر چکا تھا۔ اب یہ امریکہ کے لئے ایک ایسا خطرہ تھا جس سے نجات ضروری ہو چکی تھی۔امریکی وزارتِ خارجہ اور امریکی سی آئی اے کی سربراہی اس وقت دو سگے بھائیوں کے پاس تھی۔ جان فاسٹر ڈلس وزیر خارجہ تھا اور ایلن ڈلس سی آئی اے کا سربراہ۔ مارچ 1953 کو وزیر خارجہ نے اپنے بھائی کو حکم دیا کہ مصدق سے نجات کا جامع منصوبہ بنایا جائے۔ ایلن نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا اور دس لاکھ ڈالروں کی فوری طور منظوری دیدی۔ اس منصوبے کے تحت امریکی سی آئی اے کے افسران نے بیروت میں برطانوی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کی اور ڈالروں کے یہ صندوق لے کر امریکی صدر روز ویلٹ کا پوتا کریمٹ روز ویلٹ تہران پہنچا اور اس نے امریکی سفارت خانے کے تہہ خانے میں اپنا خفیہ دفتر بنا لیا۔ سی آئی اے نے اپنے اس پلان کا نام آپریشن آجاکس رکھا۔ کریمٹ روز ویلٹ نے شاہِ ایران اور ساتھ ساتھ سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کر دیں اور انہیں سرمائے سے خریدنا شروع کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ شاہ اسے وزارتِ عظمی سے برطرف کر دے۔ لیکن شاہ ایران، مصدق کی مقبولیت سے خوفزدہ تھا اور وہ اسے نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ سی آئی اے نے کمزور مہرے تلاش کرتے ہوئے شاہ کی بہن اشرف پہلوی کو رام کر لیا۔ اسے کثیر سرمایہ ایک شاندار کھال والے کوٹ میں چھپا کر شاہی محل میں دیا گیا۔ شہزادی اب سی آئی اے کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی۔ اس نے اپنے بھائی رضا شاہ کو قائل کر لیا کہ وہ مصدق کے خلاف سخت ایکشن لے۔ لیکن مصدق کو بھی ان تمام سرگرمیوں کا علم ہوا تو وہ دو مختلف محاذوں پر سرگرم ہو گیا۔ ایک عوام کو سازش سے آگاہ کرنا اور دوسرا سیاست دانوں سے رابطے۔(جاری ہی)
بشکریہ روزنامہ 92